بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک رات میں دس مرتبہ بیوی سے ہم بستری کرنے کی نذر (منت) ماننے کا حکم


سوال

ایک شخص  کی  جاب نہیں لگ رہی تھی، وہ بہت پریشان تھا، ایک دن اُس کی بیوی نے رات کو ہم بستری کی خواہش کی تو اُس نے ٹینشن کی وجہ سے توجہ نہیں کی، تو اُس کی بیوی نے کہا  کہ "میرے بھائی نے تمہارے لیے جاب ڈھونڈی ہے، تم پریشان نہ ہو"، تو شوہر نے کہا کہ "اگر تیرے بھائی کے ذریعہ میری  جاب لگ گئی، تو میں تجھ سے ایک رات میں دس مرتبہ ہم بستری کروں گا"،  پھر کچھ عرصہ بعد واقعی اُس کی بیوی کے بھائی  کے ذریعہ اُس کی جاب لگ گئی، تو اب کیا حکم ہے؟ اسے اپنی منت پوری کرنی پڑے گی؟

جواب

واضح رہے کہ شرعاً نذر (منت) کے منعقد ہونے کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، من جملہ اُن میں سے ایک شرط یہ ہے کہ نذر ایسے کام کی مانی جائے جو عبادتِ مقصودہ میں سے ہو، یعنی ایسی عبادت ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، ایسی عبادت کہ جس کی جنس  کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو، یا ایسا کام جو عبادت نہیں، بلکہ مباح ہو، تو اُس کی نذر (منت) ماننا درست نہیں ہے، اس سے نذر منعقد نہیں ہوتی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص  نے نہ تو نذر کے الفاظ استعمال کیے اور نہ ہی نذر  کی شرائط اس کے جملے  میں موجود ہیں، لہٰذا یہ شرعاً نذر نہیں، بلکہ وعدہ ہے، حتیٰ الامکان اس کی پاسداری کی کوشش کی جائے، نہ کرسکنے پر کوئی کفارہ لازم نہیں۔

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"الأصل أن النذر لا يصح إلا بشروط (أحدها) أن يكون الواجب من جنسه شرعا فلذلك لم يصح النذر بعيادة المريض. (والثاني) أن يكون مقصودا لا وسيلة فلم يصح النذر بالوضوء وسجدة التلاوة. (والثالث) أن لا يكون واجبا في الحال، وفي ثاني الحال فلم يصح بصلاة الظهر وغيرها من المفروضات هكذا في النهاية (والرابع) أن لا يكون المنذور معصية باعتبار نفسه هكذا في البحر الرائق."

(كتاب الصوم، الباب السادس في النذر، ١/ ٢٠٨، ط:  دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"‌ثم ‌المنذور ‌قسمان ‌منجز ‌ومعلق فالمنجز يلزم الوفاء به إن كان عبادة مقصودة بنفسها ومن جنسها واجب فيحرم عليه الوفاء بنذر معصية ولا يلزمه بنذر مباح من أكل وشرب ولبس وجماع وطلاق ولا بنذر ما ليس بعبادة مقصودة كنذر الوضوء لكل صلاة ...الخ"

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ٢/ ٦٢، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں