بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاقوں کے بعد زوجین کا دوبارہ ساتھ رہنے پر آمادہ ہونے کا حکم


سوال

میری بیٹی کو میرے داماد نے  26 مئی کو الفاظِ صریح کے ساتھ ایک طلاق دی تھی، اس کے بعد 27 مئی کو وہ میری بیٹی کو ہمارے  گھر چھوڑگیا، میری بیٹی کے دو بچے ہیں(ایک بیٹی دو سال کی اور ایک چار ماہ کا بیٹا ہے) 7 جون کو اس  نے طلاق کے کاغذات ہمارے گھر بھیج دیے، جس میں تین طلاقوں کا ذکر ہے، اب میری بیٹی مسلسل اپنے شوہر سے بات چیت کر رہی ہےاور اس کو منا رہی ہے کہ آپ   رجوع کرلیں تو وہ کہتا ہےاتنا آسان معاملہ نہیں ہے،وہ کہہ رہا ہےکہ تم کسی مفتی سے فتوی لے لو! اگر رجوع کرنے سے مذکورہ  طلاقیں ختم ہوجائے گی تو پھر کچھ ہو سکے گا ورنہ نہیں۔
مہربانی فرماکر قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے داماد  نے سائل کی بیٹی کو 26 مئی کے دن الفاظ صریح کے ساتھ ایک طلاق دی تھی تو سائل کی بیٹی پر ایک طلاقِ  رجعی واقع ہوچکی تھی اس کے بعد عدت کےاندر ہی 7 جون کو جب سائل کے داماد نے طلاق نامہ بھجوایا تھا جس میں تین طلاقیں مذکور ہیں تو اس سے سائل کی بیٹی پر مزید دو طلاقوں کے ساتھ پوری تین طلاقیں  واقع ہو چکی ہیں  اور سائل کی بیٹی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے، اب دونوں کے رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں۔

قرآنِ مجید میں باری تعالیٰ کا فرمان ہے:

"{فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُۥ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يَتَرَاجَعَآ إِن ظَنَّآ أَن يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ}." [البقرة: 230]

ترجمہ:"  پھر اگر کوئی ( تیسری ) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ  اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (مدت کے بعد ) نکاح کرلے۔ پھر اگر یہ اس کو طلاق دے دے تو ان دونوں پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ بدستور پھر مل جائیں،  بشرطیکہ دونوں غالب گمان رکھتے ہیں کہ (آئندہ) خداوندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے اور یہ خداوندی ضابطے ہیں حق تعالی ان کو بیان فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے جو دانش مند ہیں۔" (بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز،أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1،ص: 473، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں