میرے والدین حیات ہیں اورمیں دو قربانیاں کرنا چاہتا ہوں، ایک اپنے لیے اور دوسری قربانی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لیے کروں یا پھر اپنے والدین کے لیے کروں؟اور اگر والدین کےلیے کروں تو والد کے لیے کروں یا والدہ کے لیے؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کو اختیار ہے کہ جس کی طرف سے چاہے قربانی کرے، چاہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرلے اور اگر چاہے تو اپنے والدین میں سے کسی کی طرف سے قربانی کرلے، البتہ اگر والدین میں سے کسی کی طرف سے قربانی کر رہا ہے اور وہ مالدار بھی ہیں، تو جسکی طرف سے قربانی کررہا ہے، اس کی اجازت لینا ضروری ہے، ورنہ قربانی ہی درست نہ ہوگی۔اگر اپنی قربانی کرلی جائے اور دوسری قربانی اپنی طرف سے نفلی کی جائے اور اس کا ثواب سب کو بخش دیا جائے تو یہ صورت بھی جائز ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه وأولاده ليس هذا في ظاهر الرواية، وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية: إن كان أولاده صغاراً جاز عنه وعنهم جميعاً في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، وإن كانوا كباراً إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لاتجوز عنه ولا عنهم في قولهم جميعاً؛ لأن نصيب من لم يأمر صار لحماً فصار الكل لحماً."
(كتاب الأضحيه، ج:5، ص:302، ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311102165
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن