بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک قبر کے اوپر دوسری قبر بنانے کا حکم


سوال

 میری ساس جو اب اس دنیا میں نہیں رہی ان کا انتقال جناح  ہسپتال کراچی میں جمعہ کے دن ہوا، ان کی تدفین پابوش قبرستان میں کی گئی، میرا جب دل چاہتا تھا تو اپنے بیٹے کے ہمراہ قبر پر پانی وغیرہ ڈال آتا تھا،اور فاتحہ خوانی بھی کر آتا تھا، پچھلے سال 14 شعبان 2023 کو قبرستان جانا ہوا، اس کے بعد کچھ مصروفیت ایسی ہوئی کہ مجھے 12 گھنٹے نوکری پر رہنے کی وجہ سے قبرستان نہیں جا سکا، بیچ میں 10 ماہ بعد اب میرا جانا ہوا، میں وہاں جا کر کیا دیکھتا ہوں کہ میری ساس کی قبر کا نام و نشان تک نہیں رہا اور میری ساس کی قبر پر کسی دوسری عورت کی قبر  تعمیر ہو چکی ہے، میں نے گورکن سے پوچھا میری ساس کی قبر یہاں تھی وہ کہاں ہے؟ تو اس نے جواب میں کہا کہ یہاں دوسرے دن ہی قبر ہٹ جاتی ہے، اور دوسری تعمیر ہو جاتی ہے، جب کہ میں جانتا ہوں کہ میری ساس کی قبر سات سال پرانی تھی اور کہیں سے ٹوٹی پھوٹی بھی نہیں تھی، جب کہ اسی قبرستان میں 25/ 25 سال پرانی قبریں موجود ہیں، جنہیں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کئی سالوں سے ان قبروں پر کوئی نہیں  آیا، میں نے گورکن سے کہا کہ میری ساس کی  قبر تو کہیں سے خستہ حالی کا شکار بھی نہیں تھی، پھر آپ نے اس پر دوسری قبر تعمیر کیوں کی ؟اور اس کو ماہانہ کی آفر کی تھی کہ جب چاہے آکے لے جا یا کرو،اور قبر کا خیال رکھا کرو۔

 جناب سے درخواست یہ ہے کہ جن محترمہ کی قبر میری ساس کی جگہ تعمیر ہے کیا وہاں میں اپنی ساس کے نام کی تختی دوبارہ لگوا سکتا ہوں ان محترمہ کی قبر کی تختی ہٹا کر؟مجھے اس مسئلے کافتوی چاہیے کہ کیا ہم دین اسلام کی روشنی میں ایسا کرنے کا مجاز ہوں۔

2: کیا میں گورکن کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کا حق رکھتا ہوں یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ ایک قبر کے اوپر دوسری قبر بنانے کاضابطہ یہ ہے کہ اگر   قبریں  اتنی پرانی ہوچکی ہوں  کہ ان میں دفنائی گئی میت بالکل مٹی بن چکی ہوں  تو اس صورت میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس قبر ستان کی بوسیدہ قبروں کو کھود کر ان میں نئی میت کو دفن کرنا جائز ہوگا، اس صورت میں اگر سابقہ میت کی ہڈیاں وغیرہ کچھ قبر میں موجود ہوں تو انہیں قریب ہی دفن کردیا جائے یا اسی قبر میں ایک طرف علیحدہ کر کے ان ہڈیوں اور جدید میت کے درمیان مٹی کی آڑ بنادی جائے،لیکن اگر قبرستان میں موجود قبریں اتنی پرانی نہ ہوں  کہ سابقہ میت  بالکل مٹی ہوچکی ہو تو پھر ان قبروں  کو کھود کر ان  میں دوسری میت کو دفنانا جائز نہیں ہوگا،چوں کہ قبریں بوسیدہ ہونے اور میت کے اجزاء مٹی بن جانے کی کوئی مخصوص مدت کا تعین مشاہدہ سے ہی کیا جا سکتا ہے ،کہ بعض علاقے گرم اور بعض علاقے سرد ،بعض زمین میں نعش جلد  مٹی بن جاتی ہے ،بعض میں دیر سے ،اس لیے اس کے بارے میں قبرستان سے متعلق ماہرین درست اندازہ دے  سکتے ہیں ۔

1) صورتِ مسئولہ میں   مذکورہ  صورت میں یہ  شرعی معاملہ کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملہ  بھی ہے ،اس لیے انتظامیہ سے مل کر ہی اس کا کوئی بہتر حل نکالا جائے ،یک طرفہ کاروائی کرنا فتنہ وفساد کا سبب  بن سکتا ہے ،اس لیے صورت ِ مسئولہ میں  سائل کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ  اپنی ساس کی جگہ پر بنی دوسری قبر   پر لگی تختی ہٹا کر اپنی ساس کے نام کی تختی لگوائے ،کیوں کہ  دوسری  میت والے آکر پھر سائل کی ساس کی قبر کی تختی ہٹائیں گے ،اور یہ ایک فتنہ فساد کی صورت بن جائے گی ،اس لیے اگر سائل کی ساس کی قبر نیچے موجود ہے ،اور اس کے اوپر قبر بنوائی تو باہم  انتظامیہ اور موجودہ قبر کے وارثین  کی باہمی  مشاورت  کے ساتھ  دونوں قبروں کے نشان باقی رکھنے کے لیے اپنی ساس کے نام کا کتبہ (تختی ) بھی  لگوا دیں ۔  

2) اور اگر سائل کی ساس کی قبر کھود کر گورکن نے دوسری قبر بنائی  تو یہ گورکن کی سنگین غلطی  تھی ،اس کے خلاف قانونی  کاروائی کی  جا سکتی ہے ،سات آٹھ سالہ قبر کو  بظاہر بوسیدہ قبر قرار نہیں دیا جا سکتا ،اور نہ ہی ایسی قبر کھود کر اس میں  دوسری میت کی تدفین کرنی چاہیے ۔نیز حکومت کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں کوئی مؤثر نظام تشکیل دے تاکہ اس قسم کے مسائل جو کہ آج کل کثرت سے درپیش ہوتے ہیں اس کا سد باب ہو۔

مرقاۃ المفاتیح  میں ہے :

"(فإن ‌لصاحب ‌الحق ‌مقالا) ۔۔۔ أي من كان له على غريمه حق فماطله، فله أن يشكوه ويرفعه إلى الحاكم ويعاتب عليه."

(كتاب البيوع، باب الإفلاس والإنظار، ج:5، ص:1955، ط:دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں  ہے :

" لايدفن اثنان في قبر إلا لضرورة، وهذا في الابتداء، وكذا بعده. قال في الفتح: ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم، إلا أن لا يوجد، فتضم عظام الأول، ويجعل بينهما حاجز من تراب. ويكره الدفن في الفساقي اهـ وهي كبيت معقود بالبناء يسع جماعةً قياماً لمخالفتها السنة، إمداد. والكراهة فيها من وجوه: عدم اللحد، ودفن الجماعة في قبر واحد بلا ضرورة، واختلاط الرجال بالنساء بلا حاجز، وتجصيصها، والبناء عليها، بحر. قال في الحلية: وخصوصاً إن كان فيها ميت لم يبل؛ وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداءً في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلاً عن كون ذلك ونحوه مبيحاً للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اهـ: وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية: إذا صار الميت تراباً في القبر يكره دفن غيره في قبره ؛ لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية، ثم دفن غيره فيه تبركاً بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. اهـ. قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلى؛ إذ لا يمكن أن يعد لكل ميت قبر لا يدفن فيه غيره، وإن صار الأول تراباً لاسيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبور السهل والوعر، على أن المنع من الحفر إلى أن يبقى عظم عسر جداً وإن أمكن ذلك لبعض الناس، لكن الكلام في جعله حكماً عاماً لكل أحد، فتأمل'.

(کتاب الصلوۃ ،باب صلوۃ الجنازۃ ،2/ 233 ،ط:سعید)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے :

’’کوئی خاص ضرورت ہو ،مثلاً: قبر کا نشان باقی رہے، قبر کی بے حرمتی اور توہین نہ ہو،لوگ اسے پامال نہ کریں ،اس ضرورت کے پیش نظر قبر پر حسبِ ضرورت نام اور تاریخ وفات لکھنے کی گنجائش ہے، ضرورت سے زائد لکھناجائز نہیں۔اور قرآنِ پاک کی آیت اور کلمہ وغیرہ تو ہرگز نہ لکھاجائے‘‘۔

(فتاوی رحیمیہ 7/140،ط:دارالاشاعت-احکام میت ،باب چہارم ، ص:157،ط:ادارۃ الفاروق )

خیر الفتاویٰ میں ہے :

"اور قبریں جب کہ بالکل بے نشان ہو  جائیں ،اور میت بھی ان میں گل سڑ کر مٹی ہو گئی ہو ،تو پھر وہاں دوسری قبر نکالنا اور مکان بنانااور زراعت کرنا جائز ہے ۔

(کتاب الجنائز ،ج:3،ص:314،ط:مکتب امدادیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں