بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک پلاٹ کے شیئرز ملکیت میں ہونے کی صورت میں حج کی فرضیت کا حکم


سوال

میرے پاس آج سے دو سال قبل سونا تھا، اسے بیچ کر میں نے ایک فلیٹ میں شئیرزخریدے جو مجھے دس لاکھ کے ملے،  اب شاید اس کی قیمت بڑھ گئی ہو،تو سوال یہ ہے کہ اس پراپرٹی میں جتنا میراحصہ ہے اگر اس کی قیمت حج کے بقدر نصاب کو پہنچ جائے، تو مجھ پر حج فرض ہوگا؟ جب کہ اس کے علاوہ میرے پاس پراپرٹی کی صورت میں اور کچھ نہیں ہے اور وہ میں نے مستقبل کے لیے انوسٹ  کیا تھا، کیوں کہ میں اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہوں اور میری میرے شوہر سے کوئی اولاد بھی نھیں ہے، جب کہ ان کی پہلی بیوی سے ان کی اولادیں موجود ہیں، تو مستقبل کے گزر بسر کے حوالے سےخدشات کے تحت اس  پراپرٹی میں حصہ لیا تھا، اب میری راہ نمائی فرمادیں کہ میں اپنا حصہ بیچ کر  حج کرنے جاؤں؟ اور کیا محرم کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ جس  عاقل بالغ مسلمان  شخص کے پاس اتنا مال موجود ہو جس سے زندگی  میں ایک  مرتبہ  مکہ مکرمہ  تک آنے جانے کے  سفر   اور وہاں پر کھانے، پینے ، رہنے اور قربانی  وغیرہ کے خرچہ ، اور اہل وعیال کے لیے حج سے واپسی تک کے خرچہ   کا بندوبست  ہوسکتا ہو، تو ایسے شخص  پر حج  کرنا فرض ہوجاتا  ہے،  یعنی فی زمانہ حکومت کی طرف سے حج کے لیے متعین کردہ رقم کے برابر ضرورت سے زائد مال موجود ہو، تو  زندگی میں ایک مرتبہ  حج کرنا فرض ہوجاتا ہے،البتہ عورت کا اپنے شوہر یا محرم مرد کے بغیر حج پر جانا جائز نہیں، لہذا جب تک عورت کے ساتھ حج پر جانے کے لیے ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی میسر نہ ہو یا محرم میسر ہو لیکن عورت اس محرم کے خرچہ کی استطاعت نہ رکھتی ہو تو عورت پر حج فرض کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی۔ 

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  سائلہ کے پاس جس پلاٹ کے شیئرز موجود ہیں، اگر ان شیئرز کی قیمت اتنی ہو، جس کے ذریعہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق باآسانی حج کرنا ممکن ہو، تو سائلہ پر حج فرض ہے، اگر شوہر یا کوئی محرم ساتھ جانے والا نہیں ہے، تو ایسی صورت میں  سائلہ کے پاس اگر اتنا مال ہے کہ جس کے ذریعہ اپنے حج کا خرچہ اور محرم یا شوہر کے حج کا خرچہ اُٹھا سکے، تو حج ادا کرنا فرض ہے اور اگر اتنا مال موجود نہیں ہے، تو فی الفور حج کی ادائیگی لاازم نہیں ۔ 

البحر الرائق میں ہے: 

"‌وشرائطه ‌ثلاثة: شرائط وجوب، وشرائط وجوب أداء، وشرائط صحة، فالأولى ثمانية على الأصح: الإسلام، والعقل، والبلوغ، والحرية، والوقت، والقدرة على الزاد، والقدرة على الراحلة، والعلم بكون الحج فرضا، وقد ذكر المصنف منها ستة وترك الأول والأخير، والعذر له كغيره أنهما شرطان لكل عبادة وقد يقال: كذلك العقل والبلوغ والعلم المذكور يثبت لمن في دار الإسلام بمجرد الوجود فيها سواء علم بالفرضية أو لم يعلم، ولا فرق في ذلك بين أن يكون نشأ على الإسلام فيها أو لا، فيكون ذلك علما حكميا، ولمن في دار الحرب بإخبار رجلين أو رجل وامرأتين، ولو مستورين أو واحد عدل وعندهما لا تشترط العدالة والبلوغ والحرية فيه وفي نظائره الخمسة كما عرف أصولا وفروعا، والثانية خمسة على الأصح: صحة البدن، وزوال الموانع الحسية عن الذهاب إلى الحج، وأمن الطريق، وعدم قيام العدة في حق المرأة، وخروج الزوج أو المحرم معها، والثالثة أعني شرائط الصحة أربعة: الإحرام بالحج، والوقت المخصوص، والمكان المخصوص، والإسلام."

(کتاب الحج،ج:2، ص: 538،539، ط:دار الکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں