بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک پانی سے زمین سیراب ہونے کی صورت میں شفعہ کا حق حاصل ہوگا یا نہیں؟


سوال

ہماری زرعی زمین کے ساتھ کسی اور کی زمین ہے، جو تین بھائیوں کی مشترک زمین ہے، جو جنوب کی طرف سے مکمل ہماری زمین کے ساتھ ملی ہوئی ہے، اور مغرب کی طرف سے کچھ حصہ زمین کے ساتھ ملا ہوا ہے، مشرق اور شمال کی طرف سے ہمارے زمین کے ساتھ نہیں ملی ہوئی ہے، اور اطراف میں بھی ہماری بہت سی زرعی زمینیں ہیں، اور پانی بھی ہماری زمین سے ہوتے ہوئے ان کی زمین میں جاتا ہے، اب ان تین بھائیوں میں سے دو بھائیوں نے اپنی زمین کا حصہ کسی کو بیچا، اور زمین کے حصے کو متعین بھی نہیں کیا، جب ہم نے شفعہ کا دعویٰ کیا، تو کچھ مدت بعد زمین کے حصے کو متعین کیا، وہ بھی شمال کی طرف سے، جو ہماری زمین کے ساتھ ملا ہوا نہیں ہے، اب دو بار فیصلے میں مقامی علماء نے کہا کہ آپ لوگ شفعہ کے حق دار نہیں ہیں، آپ مفتیانِ کرام راہنمائی فرمائیں کہ ہم لوگ شفعہ کے حق دار ہیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ حقِ شفعہ یا تو نفسِ مبیع میں شرکت کی بنیاد پر ملتاہے یا حقِ مبیع (پانی اور راستہ) وغیرہ میں شرکت کی بنیاد پر ملتا ہے یا پڑوسی ہونے کی بنیاد پر ملتا ہے، اور ان میں سے سب سے پہلے نفسِ مبیع میں شریک شخص کو حقِ شفعہ حاصل ہوتا ہے دوسرے نمبر پر حقِ مبیع والے کو اورتیسرے نمبر پر پڑوسی کو شفعہ کا حق حاصل ہوتاہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل اور مذکورہ تینوں بھائیوں کی زمین کے پانی کا راستہ ایک ہے، تو سائل کو حقِ مبیع میں شراکت کی بنیاد پر حقِ شفعہ حاصل ہوگا، چناںچہ اگر مذکورہ تینوں بھائیوں میں سے شریک بھائی اپنے شفعہ کے حق کو استعمال نہیں کرتا تو سائل کو حقِ شفعہ حاصل ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(للخليط) متعلق بتجب (في نفس المبيع. ثم) إن لم يكن أو سلم (له في حق المبيع) وهو الذي قاسم وبقيت له شركة في حق العقار (كالشرب والطريق خاصين) ثم فسر ذلك بقوله (كشرب نهر) صغير (لا تجري فيه السفن وطريق لا ينفذ) فلو عامين لا شفعة بهما. بيانه شرب نهر مشترك بين قوم تسقى أراضيهم منه بيعت أرض منها فلكل أهل الشرب الشفعة.

(قوله وهو الذي قاسم إلخ) كذا في العيني: قال المرحوم الشيخ شاهين: فيه نظر لأن الخليط في حق المبيع أعم ممن قاسم أولا بأن كان خليطا في حق المبيع من غير قسمة... (قوله كالشرب والطريق إلخ) الشرب بكسر الشين: النصيب من الماء."

(‌‌كتاب الشفعة، ج: 6، ص: 220،219، ط: سعيد)

ہدایہ میں ہے:

"قال: "‌الشفعة ‌واجبة للخليط في نفس المبيع ثم للخليط في حق المبيع كالشرب والطريق ثم للجار" أفاد هذا اللفظ ثبوت حق الشفعة لكل واحد من هؤلاء وأفاد الترتيب... وأما الترتيب فلقوله عليه الصلاة والسلام: "الشريك أحق من الخليط، والخليط أحق من الشفيع" فالشريك في نفس المبيع والخليط في حقوق المبيع والشفيع هو الجار... قال: "وليس للشريك في الطريق والشرب والجار شفعة مع الخليط في الرقبة" لما ذكرنا أنه مقدم... قال: "فإن سلم فالشفعة للشريك في الطريق، فإن سلم أخذها الجار" لما بينا من الترتيب."

(‌‌كتاب الشفعة، ج: 4، ص: 309،308، ط: دار احياء التراث العربي)

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"وهي (واجبة) أي ثابتة (للخليط) أي الشريك (في نفس المبيع ثم) إذا لم يكن، أو كان وسلم - تثبت (للخليط في حق المبيع كالشرب) أي: النصيب من الماء (والطريق) الخاصين."

(‌‌كتاب الشفعة، ج: 2، ص: 106، ط: المكتبة العلمية، بيروت - لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100903

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں