بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مٹھی سے کم داڑھی والے شخص کی اقامت کا حکم


سوال

(1)ایک صاحب اذان دیتے ہیں ،تکبیر کہتے ہیں ،جماعت بھی کروادیتے ہیں،لیکن ان کی ڈاڑھی ایک مٹھ سے کم ہے ،کیا ان کی اذان و تکبیر سے نمازیوں کی نماز باطل ہوجائے گی؟مکروہ ہوجائے گی؟یا نمازیوں کی نماز ہوجائے گی؟کیا قرآن پاک اور حدیث میں وضاحت ہے؟

(2)ایک امام صاحب جو مفتی بھی ہیں ،ان سے کوئی سوال پوچھا جائے تو وہ غصہ میں آکر فرماتے ہیں مفتی اور عالم دین میں ہوں ،تم عالم دین نہیں ہو!کیا ان کا یہ عمل تکبر میں آتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ داڑھی کا رکھنا امور فطرت میں سے ہے،آپ صلی اللہ علیہ سلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہےکہ:" مشرکین کی مخالفت کرو،داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹاؤ۔"

صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر   رضی اللہ عنہما حج اور عمرے کے سفرمیں(جب احرام کھولتےتو)اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے  ،جتنے بال مٹھی سے زائد ہوتے انہیں کاٹ دیتے۔پہلی روایت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ داڑھی کا بڑھانا واجب ہے،دوسری روایت سے ثابت ہوا کہ داڑھی کی کم سے کم مقدار ایک بالشت ہے،لہذا پوری داڑھی کٹوانا بھی حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور ایک بالشت سے کم داڑھی کٹوانا بھی حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔

گناہ کبیرہ کا مرتکب شخص کی امامت،اذان اور اقامت مکروہ ہے،ایسے شخص کے علاوہ کسی اور شخص کو امامت،اذان اور اقامت کے لیے آگے کرنا چاہیے۔

(1)صورتِ مسئولہ میں اول تو مذکورہ شخص کو نرمی اور حکمت و بصیرت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے،اگر وہ توبہ کرکے داڑھی مکمل رکھ لے تو مقصد حاصل ہوجائے گا،ورنہ مذکورہ شخص کی اذان اور اقامت سے نمازیوں کی نماز تو بلاکراہت ادا ہوجائے گی،جہاں تک امامت کا تعلق ہے تو   دیندار باشرع مسلمان کے ہوتے ہوئےمذکورہ شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ ہوگا،اسی طرح اگر اس کے علاوہ کوئی باشرع شخص موجود ہو تو اس کوامامت،اذان یا اقامت کے لیے آگےکرنا بھی مکروہ ہے۔

(2)واقعہ کی صحیح تحقیق کے بغیر سائل کے اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے،بہر کیف سوال پوچھنے والے کو بھی چاہیے کہ ادب و احترام کے ساتھ سوال پوچھے،اور مفتی صاحب کو بھی چاہیے کہ لوگوں سےنرمی کےساتھ گفتگو فرمائیں۔

سنن ترمذی میں ہے:

"حدثنا هناد قال: حدثنا عمر بن هارون، عن أسامة بن زيد، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يأخذ من لحيته من عرضها وطولها»"

(کتاب الآداب،باب ما جاء فی الاخذ من اللحیۃ،ج:5،ص:94،ط:شرکۃ مکتبہ و مطبعۃ مصطفی)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " خالفوا المشركين: وفروا اللحى، وأحفوا الشوارب " وكان ابن عمر: «إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته، فما فضل أخذه»"

(کتاب اللباس،باب تقلیم الاظفار،ج:7،ص:160،ط:سلطانیہ)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم فتح."

(کتاب الصوم،باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ،ج:2،ص:418،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وينبغي أن يكون المؤذن رجلا عاقلا صالحا تقيا عالما بالسنة. كذا في النهاية."

(کتاب الصلاۃ،الباب الثانی فی الاذان،ج:1،ص:53،ط:رشیدیہ)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ويعاد أذان جنب) ندبا، وقيل وجوبا (لا إقامته)...قلت: وكافر وفاسق لعدم قبول قوله في الديانات

(قوله: قلت وكافر وفاسق) ذكر الفاسق هنا غير مناسب؛ لأن صاحب البحر جعل العقل والإسلام شرط صحة، والعدالة والذكورة والطهارة شرط كمال. وقال: فأذان الفاسق والمرأة والجنب صحيح، ثم قال: وينبغي أن لا يصح أذان الفاسق بالنسبة إلى قبول خبره والاعتماد عليه أي لأنه لا يقبل قوله في الأمور الدينية فلم يوجد الإعلام كما ذكره الزيلعي.

وحاصله أنه يصح أذان الفاسق وإن لم يحصل به الإعلام: أي الاعتماد على قبول قوله في دخول الوقت، بخلاف الكافر وغير العاقل فلا يصح أصلا، فتسوية الشارح بين الكافر والفاسق غير مناسبة...ثم الظاهر أن الإعادة إنما هي في المؤذن الراتب، أما لو حضر جماعة عالمون بدخول الوقت وأذن لهم فاسق أو صبي يعقل لا يكره ولا يعاد أصلا لحصول المقصود تأمل."

(باب الاذان،ج:1،ص:394،ط:سعید)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"فقولا له قولا لينا لعله يتذكر أو يخشى هذه الآية فيها عبرة عظيمة، وهو أن فرعون في غاية العتو والاستكبار وموسى صفوة الله من خلقه إذ ذاك، ومع هذا أمر أن لا يخاطب فرعون إلا بالملاطفة واللين،...وعن عكرمة في قوله: فقولا له قولا لينا قال: لا إله إلا الله، وقال عمرو بن عبيد عن الحسن البصري فقولا له قولا لينا أعذرا إليه قولا له: إن لك ربا ولك معادا، وإن بين يديك جنة ونارا، وقال بقية عن علي بن هارون عن رجل عن الضحاك بن مزاحم عن النزال بن سبرة عن علي في قوله فقولا له قولا لينا قال: كنه، وكذا روي عن سفيان الثوري: كنه بأبي مرة، والحاصل من أقوالهم أن دعوتهما له تكون بكلام رقيق لين سهل رقيق، ليكون أوقع في النفوس وأبلغ وأنجع، كما قال تعالى: ادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة وجادلهم بالتي هي أحسن."

(ج:5،ص:360،ط:دار الکتب العلمیہ)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

داڑھی منڈا فاسق معلن ہے(جس کا فسق ظاہر ہے،مالا بد منہ میں ہے:"تراشیدن ریش پیش از قبضہ حرام است" یعنی:اس سے پہلے کہ داڑھی ایک مٹھ کی مقدار ہو،داڑھی تراشنا حرام ہے(ص130)،فاسق کی اذان و اقامت دیندار آدمی کی موجودگی میں مکروہ ہے،نور الایضاح میں ہے:"ویکرہ اقامۃ الفاسق واذانہ"یعنی فاسق کی اذان و اقامت مکروہ ہے(ص62،کتاب الصلاۃ،باب الاذان)،لہذا دارھی منڈے کو اذان واقامت کا عہدہ دینا جائز نہیں ،مکروہ تحریمی ہے۔جوہرۃ نیرۃ میں ہے:"ویکرہ ان یکون المؤذن فاسقا"یعنی فاسق کو موذن بنانا مکروہ ہے(ج1،ص:44،باب الاذان)

(کتاب الاذان و الاقامۃ،ج:4،ص:94،ط:دار الاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

"ایسے شخص کے پیچھے جو داڑھی منڈاتا یا اتنی کرتواتا ہے کہ دیکھے میں داڑھی والی نہیں معلوم ہوتا،نماز مکروہ ہے الخ."

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:9،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100838

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں