بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مسلمان کا جے شری رام لکھنے کا حکم


سوال

 ایک ہندو لڑکےنے ریل کی شکل میں ایک ویڈیو بنائی، اس میں کہتا ہے کہ ہندومسلم کرنا بند کرو، میں کہتا ہوں اللہ اکبر اور تمام مسلمان بھائی کمینٹ میں کہیں جے شری رام،تو کچھ ساتھیوں نے کمینٹ میں جے شری رام لکھا، سوال یہ ہے کہ لکھنے والے نے لکھتے وقت چاہے جے شری رام زبان سے ادا کیا ہو یا نہ کیا ہو،اس  کےکفر کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شری رام ہندو مذہب میں ایک دیوتا کا نام ہے اور اس کے مطابق جے شری رام کا مطلب نعوذباللہ یہ ہوا کہ خداشری رام کی جیت ہو،جو کہ سراسر ایک شرکیہ جملہ ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں جن مسلمانوں نےجے شری رام کا مطلب معلوم ہوتے ہوئے کمنٹ میں جے شری رام کالفظ  لکھ دیا اگر چہ مذاقاً لکھا ہواور زبان سے بھی ادا نہ کیا ہو تب بھی وہ لوگ دائرۂ اسلام سے خارج ہوگئےہیں،اور ان کے سابقہ سارے کےسارے اعمال ضائع ہوگئے ہیں،ان پرلازم ہے کہ اپنے ایمان کی تجدید کریں اور اگر شادی شدہ ہیں تو اپنے نکاح کی بھی تجدید کریں،تاہم جن لوگوں کو اس کا مطلب معلوم نہیں تھاتو ان لوگوں کے کافر ہونے کا تو حکم نہیں لگایا جاسکتاالبتہ ان لوگوں کوچاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے خوب توبہ اور استغفار کریں اور احتیاطاًتجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کرلیں۔

"تفسير الجلالين"میں ہے:

"(ومن يكفر بالإيمان) أي يرتد (فقد ‌حبط ‌عمله) الصالح قبل ذلك فلا يعتد به ولا يثاب عليه (وهو في الآخرة من الخاسرين)إذا مات عليه ."

(ص:١٣٦،سورۃ المائدۃ،الآية:٥،ط:دار الحديث،القاهرة)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"يكفر إذا وصف الله تعالى بما لا يليق به، أو سخر باسم من أسمائه، أو بأمر من أوامره، أو نكر وعده ووعيده، أو جعل له شريكا، أو ولدا، أو زوجة، أو نسبه إلى الجهل، أو العجز، أو النقص ويكفر بقوله يجوز أن يفعل الله تعالى فعلا لا حكمة فيه ويكفر إن اعتقد أن الله تعالى يرضى بالكفر كذا في البحر الرائق."

(ص:٢٥٨،ج:٢،کتاب السیر ،الباب التاسع في أحكام ‌المرتدين،مطلب في موجبات الكفر أنواع منها ما يتعلق بالإيمان والإسلام،ط:دار الفکر،بیروت)

"رد المحتار علی الدر المختار"میں ہے:

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لا يعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع.

(قوله والطوع) أي الاختيار احترازا عن الإكراه ودخل فيه الهازل كما مر لأنه يعد مستخفا لتعمده التلفظ به، وإن لم يقصد معناه...والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به في الخانية ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدا عالما كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف."

(ص:٢٢٤،ج:٤،کتاب الجهاد،باب المرتد،ط:ایج ایم سعید)

وفيه ايضا:

"(و) اعلم أنه (لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره خلاف، ولو) كان ذلك (رواية ضعيفة) كما حرره في البحر، وعزاه في الأشباه إلى الصغرى.

نعم سيذكر الشارح أن ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح وظاهره أنه أمر احتياط."

(ص:٢٣٠،ج:٤،کتاب الجهاد،باب المرتد،ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501102097

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں