بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ملک کی کرنسی دوسرے ملک کی کرنسی کے عوض فروخت کرنا


سوال

144307101488 اس فتوی نمبر کے جواب کے بارے میں کچھ وضاحت مطلوب ہے ۔

آپ حضرات نے قوت خرید کے فرق کی وجہ سے مختلف ممالک کی کرنسیوں کو مختلف الجنس فرمایا ہے ۔ عرض یہ ہے کہ یہ فرق تو ایک ملک کی کرنسی میں بھی ہوتا ہے جیسے 1000 کا ایک نوٹ اور سو کے دس نوٹ ۔ یہاں ایک طرف ایک نوٹ ہے اور دوسری طرف دس نوٹ اور قوت خرید میں فرق بھی ہے مگر پھر بھی ایک جنس ہیں ۔ اور جیسے کھجور چاول کی مختلف اقسام میں فرق مسلم ہے مگر جیدھا و ردیھا نے اس کو رد کردیا ہے ۔ اور ان کو ایک جنس کہا جاتا ہے ۔ ایسے ہی کرنسی میں قوت خرید کا فرق ہے تو ان کو ایک جنس کیسے کہا جائے ۔ نیز اس قوت خرید کے فرق کو کس متفق علیہ فقیہ علیہ الرحمہ نے اختلاف جنس کا سبب قرار دیا ہے ۔ اگر حوالہ مل جائے تو نوازش ہوگی ۔ 

جواب

واضح رہےکہ ایک ملک کے مختلف سکے اور کرنسی نوٹ ایک ہی جنس کے شمار ہوتے ہیں اور مختلف ممالک کی کرنسیاں مختلف اجناس ہیں،اس لیے کہ موجودہ دور میں سکے اور کرنسی نوٹوں سے ان کی ذات،ان کا مادہ مقصود نہیں ہوتا،بلکہ آج کے دور میں "کرنسی" قوت خرید کے ایک مخصوص معیار سےعبارت ہےاور ہر ملک نے چوں کہ الگ معیارمقررکیاہواہے،مثلاً پاکستان میں روپیہ،سعودی عرب میں ریال،امریکہ میں ڈالر،لہذایہ معیار ملکوں کے اختلاف سے بدلتا رہتاہے،اس وجہ سے کہ ہرملک کی کرنسی کی حیثیت کا تعین اس ملک کی قیمتوں کے اشاریہ اور اس کی درآمدات وبرآمدات وغیرہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اور کوئی ایسی مادی چیز موجود نہیں ہے جو ان مختلف معیارات کے درمیان کوئی پائیدار تناسب قائم رکھے،بلکہ ہر ملک کے اقتصادی حالات کے تغیر واختلاف کی وجہ سے اس تناسب میں ہر روزبلکہ ہر گھنٹے تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے،لہذا ان مختلف ممالک کی کرنسیوں کے درمیان کوئی ایک پائیدار تعلق نہیں پایا جاتا جوان سب کو جنس واحد بنادے،اس کے برخلاف ایک ہی ملک کی کرنسی اور سکوں میں یہ بات نہیں،اگر چہ مقدار کے لحاظ سےوہ بھی مختلف ہوتے ہیں،لیکن اس اختلاف کا تناسب ہمیشہ ایک ہی طرح رہتاہے،اس میں کوئی فرق نہیں،مثلاً پاکستانی روپیہ اور پیسہ اگر چہ دونوں مختلف قیمت کے حامل ہیں،لیکن دونوں کے درمیان جو ایک اور سو کی نسبت ہے(کہ ایک پیسہ ایک روپیہ کا  سوواں حصہ ہوتاہے) روپیہ کی قیمت بڑھنے اور گھٹنے سے اس کی نسبت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا،بخلاف پاکستانی روپیہ او رسعودی ریال کے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی ایسی معین نسبت موجودنہیں جو ہر حال میں برقرار رہے،بلکہ ان کے درمیان نسبت ہروقت بدلتی رہتی ہے۔

لہذا جب ان کے درمیان کوئی ایسی معین نسبت جو جنس ایک کرنے کے لیے ضروری تھی،نہیں پائی گئی تو تمام ممالک کی کرنسیاں آپس میں ایک دوسرے کے لیے مختلف اجناس ہوگئیں،یہی وجہ ہے کہ ان کے نام،ان کے پیمانے اور ان سے بنائی جانے والی اکائیاں (ریز گاری وغیرہ) بھی مختلف ہوتی ہے۔(مستفاد  از فقہی مقالات ج:2،ص:122/123،ط:مکتبہ دارالعلوم)

جواہر الفتاوی میں ہے:

"جس طرح حقیقی زر سونا اور چاندی کی بیع میں متحد الجنس ہونے کی صورت میں برابری اور تقابض ضروری ہے، اسی طرح باتفاق علماء واہل حق رائج الوقت کرنسی نوٹ اور کاغذی سکہ میں بھی متحد الجنس و نوع کی صورت میں برابری اور تقابض ضروری ہے، مثلاً ایک ڈالر کے عرض دو ڈالر کی بیع جائز نہیں ، ایک پونڈ کے عوض دو پونڈ کی بیع جائز نہیں ہے ۔

علی ہذا القیاس تمام ممالک کے کاغذی سکوں کا حکم ہے، ہر ملک کا سکہ الگ الگ جنسِ ثمن ہے، ایک ملک کے مساوی سکہ میں تفاضل ربوا اور سود ہوگا، مثلاً ایک ڈالر کے بدلہ میں دو ڈالر ایک ریال کے بدلہ میں دو ریال، ایک پونڈ کے بدلہ میں دو پونڈ ایک روپیہ کے بدلہ میں دو روپیہ یا ایک روپیہ کچھ پیسے، لیکن مختلف ممالک کے سکے مختلف جنس کے حکم میں ہونے کی وجہ سے اس میں تفاضل جائز ہے، اور ہوتا بھی یہی ہے، مثلاً ایک ڈالر کے بدلہ میں 14 روپے، ایک ریال کے بدلہ میں چار روپے، تاہم نقد بنقد ہونا ضروری ہے، ادھار جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ حقیقی ثمن سونا اور چاندی کے حکم میں ہیں۔ لہذا مختلف ممالک کے سکوں کی جب بیع ہو تو دست بدست ہونا ضروری ہے۔ "

(کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت، ٢ / ٥٦ - ٥٧، ط: اسلامی کتب خانہ کراچی )

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"غیر ملکی کرنسی کو اضافی قیمت پر خریدنا

"سوال:آج کل غیر ملکی کرنسی کی خرید وفروخت کا کاروبار عام ہے، تاجر لوگ غیر ملکی کرنسی کم قیمت پرخرید کر زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں، مثلا سعودی ریال ۱۳؍روپے میں خرید کر ۱۵؍روپے میں فروخت کیا جاتا ہے تو کیا اس طرح غیرملکی کرنسی کی خرید وفروخت سود میں داخل ہے یا نہیں؟ 

الجواب:سود متحقق ہونے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں اشیاء ایک ہی جنس سے ہو، اگر جنس مختلف ہوجائے تو ان میں تفاضل (یعنی) جائز ہے ۔ موجودہ دور میں مختلف ممالک کی کرنسی مختلف الاجناس اشیاء میں داخل ہے ، اس لئے ان کی خرید وفروخت میں کمی بیشی جائز ہے۔ لہٰذا صورت  مسئولہ میں ایک سعودی ریال 13 روپے میں خرید کر 15 روپے میں فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 

لما قال العلامة ابو الحسن القدوری: فاذا عدم الوصفان الجنس والمعنی المضمون إليه حل التفاضل والنساء واذا وجد حرم التفاضل والنساء واذا وجد احدھما وعدم الاٰخر حل  التفاضل وحرم النساء(مختصرالقدوری علی صدراللباب، ١ / ١٢١، باب الربا)"

(فتاوی حقانیه، ٦ /  ٢١٤،ط:دارالعلوم حقانیه)

لہذا صورت مسئولہ میں سائل کا یہ کہنا کہ ایک ملک کی کرنسی میں بھی تفاوت ہوتا ہے، جیسے ہزار روپے کا ایک نوٹ اور سو روپے کے دس نوٹ، درست نہیں، کیوں کہ ثمن عرفی / کاغذی نوٹوں میں معتبر سرکار کی جانب سے مقرر شدہ مالیت ہوتی ہے، نوٹوں کی تعداد مالیت کے تابع ہوتی ہے، پس سو روپے کے دس نوٹوں کی مالیت ہزار کے ایک نوٹ کے برابر ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر ایک چیز کی قیمت مثلا 1000 روپے ہو، تو خریدار اس کی قیمت کی ادائیگی ہزار کے ایک ایک نوٹ سے کرے، یا پان سو کے دو نوٹ سے کرے، یا سو کے دس نوٹوں سے کرے، یا پچاس کے بیس نوٹوں سے کرے، یا بیس کے پچاس نوٹوں سے کرے، یا دس کے سو نوٹوں سے کرے، بہر صورت نوٹوں کی وجہ سے  عرفاً و قانوناً مالیت میں کوئی فرق نہیں آتا،لہذا سائل کا  یہ دعوی بلا دلیل ہے۔

تکملة فتح الملهممیں ہے:

"وأما العملة الأجنبية من الأوراق فهي جنس آخر، فيجوز مبادلتها بالتفاضل، فيجوز ثلاث ربيات باكستانية بريال واحد سعودي."

(كتاب المساقاة والمزارعة، باب الربا، ١ / ٥٩٠،ط: دارالعلوم كراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503101009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں