بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مسجد میں جمعہ کی دو جماتیں کروانے کا حکم


سوال

جھڈیاں بازار میٹھا در میں واقع "لال مسجد" جو کہ چار منزلہ عمارت ہے، اس مسجد میں کورونا کی وجہ سے نمازِ جمعہ کی دو جماعتیں کرائی جاتی ہیں، پہلی جماعت ایک بجے اور دوسری جماعت دو بجے ادا کی جاتی ہے، دوسری جماعت کے امام صاحب پہلی جماعت کے امام صاحب کی جگہ پر کھڑے نہیں ہوتے، بلکہ اس سے پچھلی صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھاتے ہیں،مذکورہ مسجد کے آس پاس اور بھی مساجد ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ شریعت کی روشنی میں اس ایک مسجد میں نمازِ جمعہ کی دو جماعتیں کرانے کا حکم بتادیں۔

جواب

محلے كي  مسجد یعنی جس میں امام، مؤذن مقرر ہوں اور نمازی معلوم ہوں، نیز  جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں  اور وہاں باقاعدگی سے پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ  محلے والوں/ اہلِ مسجد  کے  جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ  تحریمی ہے، صحابہ کا معمول یہ تھا کہ جب مسجد میں آتے اور  وہاں نماز ہوچکی ہوتی تو بعض دوسری مسجد کی جماعت میں شامل ہوتے اور بعض انفرادی نماز ادا کرتے تھے، اسی مسجد میں دوسری جماعت نہیں کراتے تھے،  ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ  دو  فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے تھے، واپس تشریف لائے تو  جماعت ہوچکی تھی، آپ نے گھر والوں کو جمع کرکے جماعت سے نماز ادا فرمائی، اگر فرض نماز کی دوسری جماعت مسجد میں بلاکراہت درست ہوتی تو رسول اللہ  ﷺ  خود بیانِ جواز  کے لیے وہاں جماعت فرماتے، اسی بنا پر  فقہاء  ایک مسجد میں کسی بھی نماز کی دوسری جماعت کرانے کی اجازت نہیں دیتے۔ کیوں کہ  جماعتِ ثانیہ کرنے سے جماعتِ اولیٰ کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے، جب کہ اصل تو جماعتِ اولیٰ ہی ہے، لیکن دو جماعتیں قائم کرنے کی صورت میں  لوگ سمجھتے ہیں کہ پہلی جماعت ملے تو ٹھیک ہے، ورنہ دوسری جماعت میں شامل ہوجائیں گے، یہ طریقہ غلط ہے۔

نیز سوال میں جمعے کی نماز کی دو جماعتیں کروانے کی جو وجہ یا عذر (یعنی کورونا وبا) ذکر کیا گیا ہے وہ عذر معتبر نہیں ہے؛ کیوں کہ کورونا وبا کی وجہ سے دو جماعتیں کروانے کی وجہ عام طور سے یہ ہوتی ہےکہ صفوں میں فاصلہ چھوڑ کر کھڑے ہونے کی وجہ سے مسجد میں جگہ ختم ہوجاتی ہے اور تمام نمازی مسجد میں ایک ساتھ نماز نہیں پڑھ پاتے ہیں، اس لیے دو جماعتیں کروائی جاتی ہیں، لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ وبائي امراض يا وائرس كے خدشے كي وجه سے باجماعت نماز میں مقتدیوں کا ایک دوسرے سے دائیں بائیں فاصلے سے کھڑا ہونا  سنتِ متوارثہ کے خلاف ہے؛ کیوں کہ وبائی امراض رسول اللہ ﷺ اور صحابہ و تابعین کے زمانے میں بھی آئے تھے، لیکن ان سنہرے و مبارک ادوار میں باجماعت نماز کے دوران صفوں میں کسی قسم کے فاصلے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، بلکہ احادیثِ مبارکہ میں  صفوں کے اتصال کی بڑی تاکید آئی ہے، صفوں کے اتصال کو فرشتوں  کا طریقہ اور اس کی خلاف ورزی کو آپس کے اختلافات اور رنجشوں کا سبب قرار دیا ہے،  لہٰذا باجماعت نماز کے دوران صفوں میں فاصلہ رکھنا نبی کریم ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین کی  سنتِ متوارثہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہِ ہے، البتہ اگر  سرکار/ حکومت  کی طرف سے فاصلے کے بغیر صفوں میں کھڑے ہونے پر  پابندی ہو  تو جماعت چھوڑنے کے بجائے  ضرورتاً  اس طرح کھڑے ہونے کی گنجائش ہوگی، لیکن اب جب کہ ہمارے یہاں سرکار / حکومت کی طرف سے مساجد میں صفوں میں مل کر کھڑے ہونے پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے تو صفوں میں فاصلہ رکھ کر کھڑے ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ"لال مسجد" میں اگر نمازِ جمعہ کی دو جماعتیں کروائی جاتی ہیں تو یہ شریعتِ مطہرہ کی رو سے جائز نہیں ہے، کیوں کہ جس طرح کسی ایک مسجد میں پنج وقتہ فرض نمازوں میں سے کسی نماز کی جماعت دو مرتبہ کروانا مکروہِ تحریمی ہے اسی طرح  ایک مسجد میں ایک مرتبہ جمعہ کی نماز کے قیام کے بعد دوسری مرتبہ اُسی مسجد میں جمعہ قائم کرنا مکروہ تحریمی ہے، بلکہ جمعہ کی نماز کا قیام چوں کہ شعائرِ دین میں سے ہے اور جمعہ کی نماز کی جماعت سے مقصود اسلام کی شان و  شوکت  اور مسلمانوں کے باہمی اتفاق و اتحاد کا اظہار ہے اور مسلمانوں کا جتنا بڑا مجمع جمع ہوکر جمعہ کی جماعت میں شریک ہوگا اتنا ہی زیادہ یہ مقصود حاصل ہوگا اور اس کے برخلاف جمعہ کی نماز کی جماعت کو دو حصوں میں تقسیم کرنے سے یہ مقصد فوت ہونے کا اندیشہ ہے۔

اگر کسی علاقے میں ایک مسجد میں دو مرتبہ جمعہ کی نماز کے قیام کا باعث یہ ہو کہ حکومتی پابندی کی وجہ سے ایک مرتبہ مسجد میں تمام افراد نہ سما سکتے ہوں تو اس کی یہ صورت بھی اختیار کی جا سکتی ہے کہ مسجد کے علاوہ کسی بڑے اور کھلے میدان میں جمعہ کی نماز ادا کر لی جائے؛ تا کہ تمام افراد ایک ساتھ جمعہ کی نماز ادا کر سکیں؛ کیوں کہ جمعہ کی نماز قائم کرنے کے لیے مسجد کی شرط نہیں، بلکہ کسی بھی جگہ جمعہ کی نماز پڑھی جا سکتی ہے، یا جتنے نمازی اس مسجد میں سما سکتے ہوں اتنے نمازی اسی مسجد میں جمعہ پڑھ لیں اور باقی نمازی کسی دوسری مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھ لیں،  اسی (پہلی) مسجد میں جمعہ یا کسی بھی فرض نماز کی جماعتِ ثانیہ نہ کروائی جائے۔

مصنَّف ابنِ ابی شیبہ میں ہے:

’’عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله ﷺ  إذا دخلوا المسجد، وقد صلي فیه، صلوافرادی‘‘.

(المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، ولایجمعون. مؤسسة علوم القرآن جدید ۵/۵۵، رقم:۷۱۸۸)

ترجمہ: حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ صحابہ کرام جب مسجد میں آتے کہ وہاں نماز ہوچکی ہوتی تو وہ انفرادی نماز ادا کرتے تھے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 552):

"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله: ويكره) أي تحريما لقول الكافي لا يجوز والمجمع لا يباح وشرح الجامع الصغير إنه بدعة كما في رسالة السندي (قوله: بأذان وإقامة إلخ) عبارته في الخزائن: أجمع مما هنا ونصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولا غير أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعا؛ كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة كما في أمالي قاضي خان اهـ ونحوه في الدرر، والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احترازا عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعا. اهـ. ثم قال في الاستدلال على الإمام الشافعي النافي للكراهة ما نصه: ولنا «أنه عليه الصلاة والسلام كان خرج ليصلح بين قوم فعاد إلى المسجد وقد صلى أهل المسجد فرجع إلى منزله فجمع أهله وصلى» ولو جاز ذلك لما اختار الصلاة في بيته على الجماعة في المسجد ولأن في الإطلاق هكذا تقليل الجماعة معنى، فإنهم لا يجتمعون إذا علموا أنهم لاتفوتهم.

وأما مسجد الشارع فالناس فيه سواء لا اختصاص له بفريق دون فريق اهـ ومثله في البدائع وغيرها، ومقتضى هذا الاستدلال كراهة التكرار في مسجد المحلة ولو بدون أذان؛ ويؤيده ما في الظهيرية: لو دخل جماعة المسجد بعد ما صلى فيه أهله يصلون وحدانا وهو ظاهر الرواية اهـ".

المبسوط للسرخسي (1/ 135):

"قال: (وإذا دخل القوم مسجدا قد صلى فيه أهله كرهت لهم أن يصلوا جماعة بأذان وإقامة ولكنهم يصلون وحدانا بغير أذان ولا إقامة) لحديث الحسن: قال: كانت الصحابة إذا فاتتهم الجماعة فمنهم من اتبع الجماعات ومنهم من صلى في مسجده بغير أذان ولا إقامة وفي الحديث «أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج ليصلح بين الأنصار فاستخلف عبد الرحمن بن عوف فرجع بعد ما صلى فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم بيته وجمع أهله فصلى بهم بأذان وإقامة» فلو كان يجوز إعادة الجماعة في المسجد لما ترك الصلاة في المسجد والصلاة فيه أفضل، وهذا عندنا، وقال الشافعي - رضي الله تعالى عنه - لا بأس بتكرار الجماعة في مسجد واحد لأن جميع الناس في المسجد سواء وإنما لإقامة الصلاة بالجماعة وهو قياس المساجد على قوارع الطرق فإنه لا بأس بتكرار الجماعة فيها.

(ولنا) أنا أمرنا بتكثير الجماعة وفي تكرار الجماعة في مسجد واحد تقليلها لأن الناس إذا عرفوا أنهم تفوتهم الجماعة يعجلون للحضور فتكثر الجماعة وإذا علموا أنه لا تفوتهم يؤخرون فيؤدي إلى تقليل الجماعات وبهذا فارق المسجد الذي على قارعة الطريق لأنه ليس له قوم معلومون فكل من حضر يصلي فيه فإعادة الجماعة فيه مرة بعد مرة لا تؤدي إلى تقليل الجماعات".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 153):

"(ولنا) ما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه - رضي الله عنهما - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من بيته ليصلح بين الأنصار لتشاجر بينهم فرجع وقد صلى في المسجد بجماعة فدخل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في منزل بعض أهله فجمع أهله فصلى بهم جماعة، ولو لم يكره تكرار الجماعة في المسجد لما تركها رسول الله صلى الله عليه وسلم مع علمه بفضل الجماعة في المسجد. وروي عن أنس بن مالك - رضي الله عنه - أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا إذا فاتتهم الجماعة صلوا في المسجد فرادى؛ ولأن التكرار يؤدي إلى تقليل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فيستعجلون فتكثر الجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم يتأخرون فتقل الجماعة، وتقليل الجماعة مكروه، بخلاف المساجد التي على قوارع الطرق؛ لأنها ليست لها أهل معروفون، فأداء الجماعة فيها مرة بعد أخرى لا يؤدي إلى تقليل الجماعات، وبخلاف ما إذا صلى فيه غير أهله؛ لأنه لا يؤدي إلى تقليل الجماعة؛ لأن أهل المسجد ينتظرون أذان المؤذن المعروف فيحضرون حينئذ؛ ولأن حق المسجد لم يقض بعد؛ لأن قضاء حقه على أهله ألا ترى أن المرمة ونصب الإمام والمؤذن عليهم فكان عليهم قضاؤه؟ ولا عبرة بتقليل الجماعة الأولين؛ لأن ذلك مضاف إليهم حيث لم ينتظروا حضور أهل المسجد بخلاف أهل المسجد؛ لأن انتظارهم ليس بواجب عليهم".

حلبی کبیری میں ہے:

"والمسجد الجامع لیس بشرط، ولهذا أجمعوا علی جوازها بالمصلی في فناء المصر".

(ص؛551، فصل فی صلاۃ الجمعۃ، ط: سہیل اکیڈمی)

 

 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (3 / 853):

"(سووا صفوفكم) : بعدم تخلية الفرجة".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (3 / 854):

"(وسدوا الخلل) أي: من الصفوف، أو مما بينهن".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (3 / 851):

"(وقاربوا بينها) أي: بين الصفوف بحيث لايقع بين صفين صف آخر، فيصير تقارب أشباحكم سببًا لتعاضد أرواحكم، ولايقدر الشيطان أن يمرّ بين أيديكم، والظاهر أن محله حيث لا عذر كحر أو برد شديد".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (1 / 570):

"ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانًا كره كقيامة في صفّ خلف صفّ فيه فرجة. قلت: وبالكراهة أيضًا صرح الشافعية. قال السيوطي في [بسط الكف في إتمام الصف]: وهذا الفعل مفوت لفضيلة الجماعة الذي هو التضعيف لا لأصل بركة الجماعة، فتضعيفها غير بركتها، وبركتها هي عود بركة الكامل منهم على الناقص. اهـ. ولو وجد فرجة في الأول لا الثاني له خرق الثاني لتقصيرهم، وفي الحديث «من سد فرجة غفر له» وصح «خياركم ألينكم مناكب في الصلاة» وبهذا يعلم جهل من يستمسك عند دخول داخل بجنبه في الصف ويظن أنه رياء كما بسط في البحر.

"(قوله: كقيامه في صف إلخ) هل الكراهة فيه تنزيهية أو تحريمية، ويرشد إلى الثاني قوله صلى الله عليه وسلم "ومن قطعه قطعه الله ط".

صفوں میں اتصالِ صفوف  سے متعلق مشکوٰۃ شریف کی چند احادیث درج ذیل ہیں:

"عن النعمان بن بشير رضي الله عنهما، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسوي صفوفنا حتى كأنما يسوي بها القداح، حتى رأى أنا قد عقلنا عنه، ثم خرج يومًا فقام حتى كاد أن يكبر، فرأى رجلاً باديًا صدره من الصف، فقال: عباد الله! لتسون صفوفكم، أو ليخالفن الله بين وجوهكم» رواه مسلم".

(مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف،1/ 239،ط: المكتب الاسلامي۔بيروت)

 حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : رسول اللہﷺہماری صفیں (اس طرح) برابر (سیدھی) کیا کرتے تھے کہ گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جا سکتا تھا، یہاں تک کہ ہم بھی آپﷺسے (صفوں کے  برابر کرنے کی اہمیت) سمجھ گئے۔ ایک دن رسول اللہﷺ(مکان سے نکل کر) تشریف لائے اور (نماز کے لیے ) کھڑے ہوگئے اور تکبیر (تحریمہ ) کہنے ہی کو تھے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے کچھ نکلا ہوا ہے آپﷺنے دیکھ لیا، چنانچہ (یہ دیکھ کر ) آپﷺنے فرمایا کہ:  " اے اللہ کے بندو! اپنی صفیں سیدھی کر و، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔

"و عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «سووا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة» متفق عليه".

(مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف،1/ 239،ط: المكتب الاسلامي۔بيروت)

حضرت انس رضی اللہ عنہ  روایت کرتے  ہیں کہ  :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تم اپنی صفوں کو برابر رکھا کرو،  کیوں کہ صفوں کو برابر رکھنا نماز کی تکمیل میں  سےہے۔

"وعن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال: «خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فرآنا حلقًا، فقال: "ما لي أراكم عزين؟ ! ". ثم خرج علينا فقال: " ألا تصفون كما تصف الملائكة عند ربها؟ " فقلنا: يا رسول الله! وكيف تصف الملائكة عند ربها؟ قال: " يتمون الصفوف الأولى، ويتراصون في الصف»". رواه مسلم".

(مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف،1/ 240،ط: المكتب الاسلامي۔بيروت)

حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ  :(ایک روز) رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے اور ہمیں مختلف حلقوں میں بیٹھا دیکھ کر فرمایا کہ : کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں الگ الگ جماعتوں کی صورت میں (بیٹھے ہوئے) دیکھ رہا ہوں ؟ (یعنی اس طرح الگ الگ جماعت کر کے نہ بیٹھا کرو، کیوں کہ یہ نا اتفاقی اور انتشار کی علامت ہے)، پھر اسی طرح (ایک روز) رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ (نماز میں) اس طرح صف کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اللہ کے حضور  (بندگی کے لیےکھڑے ہونے کے واسطے) صف باندھتے ہیں۔ہم نے عرض کیا کہ : " یا رسول اللہ ﷺ ! فرشتے اپنے پروردگار کے حضور کس طرح صف باندھتے ہیں ؟ فرمایا : پہلی صفوں کو پوری کرتے ہیں اور صف میں بالکل (برابر، برابر) کھڑے ہوتے ہیں۔

"عن أنس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «رصوا صفوفكم، وقاربوا بينها، وحاذوا بالأعناق ; فوالذي نفسي بيده، إني لأرى الشيطان يدخل من خلل الصف كأنها الحذف» ". رواه أبو داود".

(مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف،1/ 240،ط: المكتب الاسلامي۔بيروت)

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  کہ : اپنی صفیں ملی ہوئی رکھو (یعنی آپس میں خوب مل کر کھڑے ہو) اور صفوں کے درمیان قرب رکھو (یعنی دو صفوں کے درمیان اس قدر فاصلہ نہ ہو کہ ایک صف اور کھڑی ہو سکے )، نیز اپنی گردنیں برابر رکھو (یعنی صف میں تم میں سے کوئی بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو، بلکہ ہموار  جگہ پر کھڑے ہو تاکہ سب کی گردنیں برابر رہیں ) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں شیطان کو بکری کے کالے بچے کی طرح تمہاری صفوں کی کشادگی میں گھستے دیکھتا ہوں۔

"عن أبي أمامة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سووا صفوفكم، وحاذوا بين مناكبكم، ولينوا في أيدي إخوانكم، وسدوا الخلل، فإن الشيطان يدخل فيما بينكم بمنزلة الْحَذَفِ» " يعني أولاد الضأن الصغار. رواه أحمد".

(مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف،1/ 242،ط: المكتب الاسلامي۔بيروت)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول  اللہ ﷺ نے فرمایا  کہ : اپنی صفوں کو برابر اور اپنے کندھوں کو ہموار رکھو (یعنی ایک سطح اور ہموار جگہ پر کھڑے  ہو اور اونچا نیچا ہو کر مت کھڑے ہو) اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ کے آگے نرم رہو  (یعنی اگر کوئی آدمی کندھے پر ہاتھ  رکھ  کر تمہیں صف میں برابر کرے تو اس سے انکار نہ کرو)، بلکہ برابر ہو جاؤ، نیز صفوں میں خلا پیدا نہ کرو ،کیوں کہ شیطان خذف یعنی بھیڑ کا چھوٹا بچہ بن کر تمہارے درمیان گھس جاتا ہے۔ 

"و عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «أقيموا الصفوف، وحاذوا بين المناكب، وسدوا الخلل، ولينوا بأيدي إخوانكم، ولاتذروا فرجات الشيطان، ومن وصل صفًّا وصله الله، ومن قطعه قطعه الله» ". رواه أبو داود وروى النسائي".

(مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف،1/ 242،ط: المكتب الاسلامي۔بيروت)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  روایت کرتے  ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : صفوں کو سید ھی کرو، اپنے کندھوں کے درمیان ہمواری رکھو، صفوں کے خلاء کو پر کرو، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم رہو (یعنی اگر کوئی آدمی تمہیں ہاتھوں سے پکڑ کر صف میں برابر کرے تو اس کا کہنا مانو) اور صفوں میں شیطان کے لیے خلا نہ چھوڑو اور (فرمایا) جس آدمی نے صف کو ملایا ( یعنی صف میں خالی جگہ پر جا کھڑا ہو گیا) تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنے فضل اور اپنی رحمت سے) ملا دے گا اور (یاد رکھو) جو شخص صف کو توڑے گا تو اللہ تعالیٰ اسے توڑ ڈالے گا (یعنی مقام ِقرب سے دور پھینک دے گا)۔

فتاوی رحیمیہ (ج: 6،ص:125) میں ہے:

"نماز جمعہ کسی بھی طرح(چاہے مالی نقصان برداشت کرنا پڑے)اس کی اصل جگہ یعنی مسجد میں اور اگر یہ نہ ہوسکے توعبادت خانہ میں جم غفیرکے ساتھ ادا کرے ۔۔۔۔۔ جہاں امام اور مؤذن مقرر ہو اور پنجگانہ نماز بروقت باجماعت ہوتی ہو وہاں جماعتِ ثانیہ مکروہ ہے ، مبسوط سرخسی میں ہے: "قال: (وإذا دخل القوم مسجداً قد صلی فیه أهله کرهت لهم أن یصلوا جماعةً بأذان وإقامة، ولکنهم یصلون وحداناً بغیر أذان وإقامة)؛ لحدیث الحسن: قال: کانت الصحابة إذا فاتتهم الجماعة فمنهم من اتبع الجماعات، ومنهم من صلی في مسجده بغیر أذان ولا إقامة". (مبسوط سرخسی ج۱ ص ۱۳۵)(شامی ج۱ ص۳۶۷ باب الاذان) نیز جماعتِ ثانیہ کرنے سے جماعتِ اولیٰ کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے، اصل تو جماعتِ اولیٰ ہی ہے، لوگ سمجھتے ہیں پہلی جماعت ملے تو ٹھیک ہے، ورنہ دوسری جماعت کر لیں گے، یہ طریقہ غلط ہے"۔

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100386

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں