بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مسجد کی زائد چیزیں دوسری مسجد میں استعمال کرنا


سوال

اگر ایک مسجد میں استعمال کی چیزیں ضرورت سے زیادہ موجود ہوں، وہ استعمال میں بھی نہیں لائی جا سکیں،اور ان چیزوں کے ضائع ہونے کا خطرہ بھی ہو، کیا وہ چیزیں کسی دوسری مسجد کو استعمال کے لیے دی جا سکتی ہیں؟ یا ان چیزوں کو بیچ کر ان کا پیسہ مسجد پر لگایا جا سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً  مسجد کی  چیزیں جو استعمال سے زائد ہیں،اور ان کے استعمال نہ ہونے پر ضائع ہونےکا خدشہ بھی ہو،اور دوسری مسجد میں ان چیزوں کی ضرورت بھی ہو تو انہیں دوسری مسجد میں دینا جائز ہے،اور اس کے علاوہ اگر کوئی سامان قابلِ انتفاع نہ ہوتو  اس کو فروخت کر کے ان  پیسوں کو اسی مسجد میں استعمال کیا جائے ۔

البحر الرائق میں ہے:

"‌ولا ‌يجوز ‌نقله ‌ونقل ‌ماله ‌إلى ‌مسجد ‌آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى كذا في الحاوي القدسي وفي المجتبى وأكثر المشايخ على قول أبي يوسف ورجح في فتح القدير قول أبي يوسف بأنه الأوجه قال وأما الحصر والقناديل فالصحيح من مذهب أبي يوسف أنه لا يعود إلى ملك متخذه بل يحول إلى مسجد آخر أو يبيعه قيم المسجد للمسجدوفي الخلاصة قال محمد في الفرس إذا جعله حبيسا في سبيل الله فصار بحيث لا يستطاع أن يركب يباع ويصرف ثمنه إلى صاحبه أو ورثته كما في المسجد وإن لم يعلم صاحبه يشتري بثمنه فرسا آخر يغزى عليه ولا حاجة إلى الحاكم ولو جعل جنازة وملاءة ومغتسلا وقفا في محلة ومات أهلها كلهم لا ترد إلى الورثة بل تحمل إلى مكان آخر فإن صح هذا عن محمد فهو رواية في البواري والحصر أنها لا تعود إلى الورثة.وهكذا نقل عن الشيخ الإمام الحلواني في المسجد والحوض إذا خرب ولا يحتاج إليه لتفرق الناس عنه أنه تصرف أوقافه إلى مسجد آخر أو حوض آخر."

(كتاب الوقف، فصل اختص المسجد بأحكام تخالف أحكام مطلق الوقف، جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق، ج:5 ص:272 ط: دار الکتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100909

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں