بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مرتبہ زکاۃ واجب ہوجانے کے بعد دورانِ سال مال کی کمی بیشی کا اعتبار نہیں


سوال

مجھےزکاۃ کے متعلق یہ معلوم کرنا ہے کہ میرے بینک اکاؤنٹ میں سارا سال بیلنس رہتا ہے :

1۔ بینک میں کتنا بیلنس ہو تو اس پر زکاۃ لگے گی ؟

2۔ بیلنس روزانہ کم زیادہ ہوتا رہتا ہے تو ہم اس کا کس طرح حساب لگائیں گے کہ کتنے بیلنس پر سال کے آخر میں زکاۃ لگے گی ؟

جواب

واضح رہے کہ زکاۃ واجب ہونے کا شرعی قانون یہ ہے کہ جس شخص کے پاس کسی بھی وقت ساڑھے سات تولہ سونا ، یا ساڑھے باون تولہ چاندی جمع ہوجائے یا اگر سونا چاندی اور نقدی ملاکر ساڑھے باون تو لہ چاندی کی قیمت کے بقدر مال اس کے پاس جمع ہوجائے تو ایسا شخص صاحبِ نصاب بن جاتا ہے ، اب زکاۃ کی ادائیگی لازم ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس نصاب پر سال گزر جائے اور سال گزرنے کے بعد بھی اس کے پاس نصاب کے بقدر مال موجود ہو ، سال کےدرمیان مال کم زیادہ ہوتا بھی رہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، سال کے آخر میں دیکھا جائے کہ مذکورہ شخص کے پاس نصاب کے بقدر مال موجود ہے یا نہیں اگر موجود ہے تو اس پر کُل مال پر ڈھائی فیصد زکاۃ نکالنا لازم ہوگا چاہے مال سال کے درمیان جتنا بھی بڑھ  جائے ۔

1-2۔ لہٰذا  صورتِ مسئولہ میں اگر آپ صاحبِ نصاب ہیں تو  جس وقت آپ زکات کا حساب کرتے ہیں اس وقت دیکھا جائے گا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں کتنا بیلنس ہے اور  آپ کے پاس کل مالیت کتنی موجود ہے ، ان سب کو  ملاکر  (اگر وہ اس وقت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو) کُل مال پر ڈھائی فیصد زکاۃ دینا لازم ہوگا۔

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"و سبب الوجوب ما جعله الشرع سببا وهو المال قال الله تعالى {خذ من أموالهم صدقة} [التوبة: 103] ولهذا يضاف الواجب إليه فيقال زكاة المال والواجبات تضاف إلى أسبابها، ولكن المال سبب باعتبار غنى المالك «، قال النبي صلى الله عليه وسلم لمعاذ - رضي الله عنه - أعلمهم أن الله تعالى فرض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم وترد في فقرائهم». والغنى لا يحصل إلا بمال مقدر وذلك هو النصاب الثابت ببيان صاحب الشرع والنصاب إنما يكون سببا باعتبار صفة النماء، فإن الواجب جزء من فضل المال قال الله تعالى {ويسألونك ماذا ينفقون قل العفو} [البقرة: 219] أي الفضل فصار السبب النصاب النامي ولهذا يضاف إلى النصاب وإلى السائمة يقال زكاة السائمة وزكاة التجارة والدليل عليه أن الواجب يتضاعف بتضاعف النصاب فإن قيل: الزكاة تتكرر في النصاب الواحد بتكرر الحول ثم الحول شرط وليس بسبب قلنا التكرر باعتبار تجدد النمو، فإن النماء لايحصل إلا بالمدة فقدر ذلك الشرع بالحول تيسيرًا على الناس فيتكرر الحول بتجدد معنى النمو ويتجدد وجوب الزكاة باعتبار تجدد السبب."

(كتاب الزكوة، (2 / 149) ط: ادارة القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101755

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں