بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مہینہ صوم داؤدی کی نذر ماننا


سوال

ایک آدمی نے نذر مانی کہ: ” اگر  میرا کام ہو جائے تو میں صوم ِ داؤدی رکھوں گا ایک مہینہ تک“، نیت یہ تھی کہ ایک دن  روزہ رکھوں گا  اور ایک دن روزہ چھوڑوں گا ،     اب وہ کام ہو چکا ہے تو   کس طرح ادا کرے گا ، شمسی مہینے کے حساب سے یا قمری مہینے کے حساب سے؟ اور اس طرح کی نذر  دو مختلف موقع پر  مانی ہے ،  اب کیا ایک دفعہ ادا  کرنے سے ادا ہو جائیں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جب مذکورہ شخص نے غیر معین طور پر  نذر مانی کہ  : ” اگر  میرا کام ہو جائے تو میں صوم ِ داؤدی رکھوں گا ایک مہینہ تک“    تو اس کام کے ہوجانے کے بعد اس پر ایک مہینہ  ”صوم داؤدی “(ایک دن روزہ  اور ایک دن افطار)  رکھنا لازم ہوں گے،  اور غیر معین مہینہ کی نذر ہونے کی وجہ سے  روزہ رکھنے  کا  طریقہ یہ ہوگا کہ وہ   تیس دن  تک اس طرح  روزے  رکھے کہ  ایک  دن روزہ  رکھے اورایک دن ناغہ کرے۔

اور اگر اس نے ایک معاملہ پر دو مرتبہ یہ نذر مانی تھی اور  پہلی مرتبہ نذر ماننے کے بعد، نذر کو پورا بھی نہیں کیا تھا تو اب ایک   مہینہ صوم داؤدی رکھنا کافی ہوگا، اور اگر  الگ الگ معاملے پر نذر مانی تھی،  یا ایک مرتبہ  نذر ماننےکے بعد اس کو پورا کرلیا تھا ، اس کے بعد دوبارہ نذر مانی تھی تو اب دونوں نذر مستقل مکمل کرنا لازم ہوں گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو نذر صوم شهر غير معين متتابعا فأفطر يومًا) ولو من الأيام المنهية (استقبل) لأنه أخل بالوصف مع خلو شهر عن أيام نهي نهر بخلاف السنة (لا) يستقبل (في نذر) شهر (معين) لئلا يقع كله في غير الوقت.

(قوله: ولو نذر صوم شهر إلخ) ويلزمه صومه بالعدد لا هلاليًا والشهر المعين هلالي كما سيجيء عن الفتح من نظائره ط (قوله: متتابعًا) أفاد لزوم التتابع إن صرح به وكذا إذا نواه، أما إذا لم يذكره ولم ينوه إن شاء تابع وإن شاء فرق، وهذا في المطلق أما صوم شهر بعينه أو أيام بعينها فيلزمه التتابع وإن لم يذكره، سراج."

 (2 / 435، كتاب الصوم، ط: سعيد)

وفيه أیضا:

"وفي البحر عن الخلاصة والتجريد: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين، والمجلس والمجالس سواء؛ ولو قال: عنيت بالثاني الأول ففي حلفه بالله لايقبل، وبحجة أو عمرة يقبل. وفيه معزياً للأصل: هو يهودي هو نصراني يمينان، وكذا والله والله أو والله والرحمن في الأصح. واتفقوا أن والله والرحمن يمينان، وبلا عطف واحدة.

 (قوله: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين) وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي. اهـ. مقدسي، ومثله في القهستاني عن المنية (قوله: وبحجة أو عمرة يقبل) لعل وجهه أن قوله: إن فعلت كذا فعلي حجة، ثم حلف ثانياً كذلك يحتمل أن يكون الثاني إخباراً عن الأول، بخلاف قوله: والله لاأفعله مرتين؛ فإن الثاني لايحتمل الإخبار؛ فلاتصح به نية الأول، ثم رأيته كذلك في الذخيرة. وفي ط عن الهندية عن المبسوط: وإن كان إحدى اليمينين بحجة والأخرى بالله تعالى فعليه كفارة وحجة."

(3/ 714، كتاب الإيمان، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں