بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جانوروں کے نصف منافع پر دینا


سوال

 ایک بندے کی بکریاں ہیں دوسرا ان کو پالتا ہے، منافع میں دونوں شریک ہیں ،شریعت کی روشنی میں اس کا  جواب عنایت فرمائیں؟

جواب

ایک آدمی اپنی بکریاں دوسرے آدمی کو اس لیے دے تاکہ وہ بکریوں   کوپالے اور ان بکریوں سے حاصل ہونے والے منافع میں دونوں شریک ہوں تو یہ عقد شرعاً  جائز نہیں ہے ، ایسے عقد سے بچنا ضروری ہے اگر یہ عقد ہو چکا ہے تو  عقد  کو ختم کیا جائے اور عقد کے فاسد ہونے کی وجہ سےبکریوں سے جتنے بھی منافع (دودھ اور بچےوغیرہ) حاصل ہوئے ہیں وہ بکریوں کے   مالک کے ہوں گے اور پالنے والےکےلیے جتنا اس نے بکریوں پر خرچ کیا ہے  وہ خرچہ اور ایک بکریاں پالنے والے مزدور  کی جتنی مزدوری بنتی ہے وہ بکریاں پالنے والے کو دینا مالک کے اوپر لازم ہے۔

البتہ  جواز کی  یہ صورت ممکن ہے کہ بکریوں کا مالک کچھ بکریاں اس  چرانے والے کے اوپر  بیچ دے اگرچہ تھوڑی قیمت پر ہی بیچے  پھر اس کے بعد دونوں منافع میں شریک ہو جائیں ، اور دوسری ممکنہ جائز صورت یہ ہے کہ مالک  بکریاں چرانے والے کو بیچنے کے بعد  پیسے معاف کر دے پھر  دوسرا آدمی بکریاں چرائے حاصل ہونے والے منافع میں دونوں شریک ہوں اور اگر کسی علاقہ میں یہ طریقہ عام ہے تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق گنجائش ہو گی۔

فتاویٰ شامی میںہے :

"وعلى ‌هذا إذا دفع البقرة بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين، فما حدث فهو لصاحب البقرة وللآخر مثل علفه وأجر مثله تتارخانية."

(كتاب الشركة ، ‌‌فصل في الشركة الفاسدة ، ج : 4 ، ص : 327 ، ط : سعيد كراچي)

وفيها ايضا:

"فلو دفع بزر القز أو بقرة أو دجاجا لآخر بالعلف مناصفة فالخارج كله للمالك لحدوثه من ملكه وعليه قيمة العلف وأجر مثل العامل عيني ملخصا۔۔۔(قوله بالعلف مناصفة) متعلق بدفع: أي دفع ذلك ليكون الخارج من البزر والبقرة والدجاج بينهما مناصفة بشرط أن يعلف ذلك من ورق التوت ونحوه (قوله فالخارج كله للمالك) أي الخارج: وهو القز واللبن والسمن والبيض كله للمالك، فإن استهلكه العامل ضمنه (قوله وعليه قيمة العلف) أي إن كان مملوكا (قوله وأجر مثل العامل) الظاهر أن له الأجر بالغا ما بلغ لجهالة التسمية، وانظر ما كتبناه في إجارات تنقيح الحامدية."

(‌‌باب البيع الفاسد ، ج : 5 ، ص : 69)

تاتارخانیہمیںہے:

"وعلى هذا : إذا دفع البقرة إلى إنسان بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفان فما حدث فهو لصاحب البقرة، ولذلك الرجل مثل علفه الذي علفهاوأجر مثله لمن قام عليها ."

(کتاب الشرکۃ ، الفصل السادس فی الشرکۃ بالاعمال ، جلد :7 ،ص :505 ، ط :مکتبۃ زکریا دیوبند)

فتاویٰہندیہمیںہے:

"وعلى هذا ‌إذا ‌دفع ‌البقرة ‌إلى ‌إنسان ‌بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين فما حدث فهو لصاحب البقرة ولذلك الرجل مثل العلف الذي علفها وأجر مثله فيما قام عليها ۔۔۔ والحيلة في ذلك أن يبيع نصف البقرة من ذلك الرجل ۔۔۔ بثمن معلوم حتى تصير البقرة وأجناسها مشتركة بينهما فيكون الحادث منها على الشركة، كذا في الظهيرية."

(كتاب الشركة ، الباب الخامس في الشركة الفاسدة ، ج: 2 ، ص :335 ، ط : المطبعة الكبرى الأميرية)

وفيهاايضاّ :

"دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما."

(کتاب الااجارۃ ، الباب الخامس عشر في بيان ما يجوز من الإجارة وما لا يجوز ، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه ، ج :4 ، ص : 445/46 ، ط : المطبعة الكبرى الأميرية)

البحرالرائق میںہے:

"ومثله إذا دفع بقرة إلى آخر يعلفها ليكون الحادث بينهما بالنصف فالحادث كله لصاحب البقرة، وله على صاحب البقرة ثمن العلف، وأجر مثله."

(کتاب البیع ، باب البيع الفاسد ، ج :6 ، ص : 85 ، ط :دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں