بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک جماع سے دوسرے جماع کے مابین کتنا وقفہ رکھا جائے؟


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ میں اپنی بیوی سے ہمبستری کے بعد کتنا وقفہ رکھ سکتا ہوں ،شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے ؟

جواب

 بصورتِ مسئولہ شرعا اس سلسلے میں اوقات و مدت اور وقفہ کی کوئی تحدید نہیں ہے ، ایام ممنوعہ کے علاوہ کبھی بھی بیوی سے ہم بستری کی جاسکتی ہے ؛ البتہ مزاج و قوت کے اعتبار سے افراد کی نوعیتیں مختلف ہوتی ہیں ، اس لیے اپنی  اور اہلیہ کی صحت و تندرستی کو ملحوظ رکھنا چاہیے  

تفسیرِ کبیر للرازی میں ہے :

"المسألة الرابعة: اختلف المفسرون في تفسير قوله: أنى شئتم والمشهور ما ذكرناه أنه يجوز للزوج أن يأتيها من قبلها في قبلها، ومن دبرها في قبلها والثاني: أن المعنى: أي وقت شئتم من أوقات الحل: يعني إذا لم تكن ‌أجنبية، أو محرمة، أو صائمة، أو حائضا والثالث: أنه يجوز للرجل أن ينكحها قائمة أو باركة، أو مضطجعة، بعد أن يكون في الفرج الرابع: قال ابن عباس: المعنى إن شاء، وإن شاء لم يعزل، وهو منقول عن سعيد بن المسيب الخامس: متى شئتم من ليل أو نهار."

(تفسیر سورۃ البقرۃ 223 ،الحکم الثامن ،ج:6 ،ص:423 ،ط:دارإحياء التراث)

تفسیرِ قرطبی میں ہے :

"نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم" زاد في رواية عن الزهري: إن شاء مجبية وإن شاء غير مجبية غير إن ذلك في صمام واحد."

(تفسیر سورۃ البقرۃ :223 ،ج:3 ،ص:93 ،ط:دارالکتب المصریۃ)

البحرالرائق میں ہے :

"اعلم أن هذه المسألة على ثلاثة أوجه؛ لأن الدم إما ينقطع لتمام العشرة أو دونها لتمام العادة أو دونهما ففيما إذا انقطع لتمام العشرة يحل وطؤها بمجرد الانقطاع ويستحب له أن لا يطأها حتى تغتسل، وفيما إذا انقطع لما دون العشرة دون عادتها لا يقربها وإن اغتسلت ما لم تمض عادتها، وفيما إذا انقطع للأقل لتمام عادتها إن اغتسلت أو مضى عليها وقت صلاة حل وإلا لا وكذا النفاس إذا انقطع لما دون الأربعين لتمام عادتها، فإن اغتسلت أو مضى الوقت حل وإلا لا، كذا في المحيط."

(کتاب الطھارۃ،باب الحیض،213/1، ط: دار الکتاب الإسلامی)

فتاویٰ حقانیہ میں ہے :

سوال :

"کیا بیوی سے جماع کے لیے کچھ ممنوعہ اوقات ہیں ؟۔۔۔۔۔"

الجواب :شرعی موانع(حیض ونفاس کی حالت)کے علاوہ جماع  کے لیے مخصوص اوقات کی تعیین اور بعض سے ممانعت کی کوئی شرعی دلیل نہیں ۔۔۔۔"

(کتاب النکاح ،باب حقوق الزوجین ،ج:4 ،ص:436 ،ط:جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502100945

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں