بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک جماعت کا دوسری جماعت کو سلام کرنے کا حکم


سوال

دو لوگوں میں سے ایک سلام کرے، اور دوسرے دو لوگوں میں سےایک جواب دے سکتاہے  یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ لوگوں کی جماعت جب لوگوں کی جماعت کے پاس آئے اور آنے والوں میں سے ایک سلام کرے اور دوسری جماعت میں سے کوئی ایک جواب دے دے تو یہ سلام اور جواب سب کی طرف سے ہوجائے گا،  البتہ  ممکن ہو تو بہتر یہ  ہی ہے کہ ہر ایک سلام کرے اور ہر ایک جواب دے؛  لہذا صورتِ  مسئولہ میں جب دو لوگ دولوگوں کے پاس آئے اورایک نے سلام کیا تو دوسرے دو لوگوں میں سے اگر ایک جواب دے  دے گا تو یہ کفایت کر جائے گا،  البتہ بہتر یہ ہی ہے کہ دونوں الگ  الگ جواب دیں۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

«قال الفقيه أبو الليث - رحمه الله -: إذا دخل جماعة على قوم، فإن تركوا السلام فكلهم آثمون في ذلك، وإن سلم واحد منهم جاز عنهم جميعًا، وإن سلم كلّهم فهو أفضل، وإن تركوا الجواب فكلهم آثمون، وإن رد واحد منهم أجزأهم وبه ورد الأثر وهو اختيار الفقيه أبي الليث - رحمه الله تعالى -، وإن أجاب كلهم فهو أفضل، كذا في الذخيرة.»

(کتاب  الکراہیۃ  باب سابع  ج نمبر ۵ ص نمبر ۳۲۵،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201637

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں