بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک امام کا دو جگہ عیدین کا خطبہ دینا


سوال

کیا ایک امام  دو جگہ عیدین کا خطبہ پڑھا سکتا ہے ؟  مدلل  جواب مطلوب ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  بہتر اور مناسب طریقہ تو یہی ہے کہ  جو شخص عید کی نماز  پڑھائے وہی خطبہ بھی دے،  اگر یاد نہ ہو تو خطبہ دیکھ کر بھی پڑھا جاسکتا ہے، لیکن اگر عید کی نماز ایک شخص نے پڑھائی اور خطبہ کسی اور نے دیا تو  بھی عید کی نماز ادا ہوجائے گی۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر کوئی شخص عید کی نماز اور خطبہ ایک جگہ دے چکا ہو تو اس کو صرف  خطبہ دینے کے لیے  دوسری جگہ  نہیں جانا چاہیے، لیکن اگر اس نے وہاں جاکر خطبہ دے دیا  اور عید کی نماز وہاں ایسے شخص نے پڑھائی جس نے ابھی تک عید کی نماز ادا نہیں کی تھی  تو عید کی نماز ہوجائے گی، اس لیے کہ فقہاءِ کرام نے یہ جزئیہ نقل کیا ہے کہ اگر نابالغ  جمعہ کا خطبہ دے اور بالغ شخص نماز پڑھائے تو یہ اگرچہ پسندیدہ نہیں ہے، لیکن جمعہ ادا ہوجائے گا، اور نابالغ کی نماز نفل ہوتی ہے، اسی طرح جو شخص عید کی نماز ادا کرچکا ہے  اب وہ کسی دوسری جگہ نماز کے لیے جاتا ہے تو وہ نماز اس کے حق میں نفل ہوگی، لہذا اس کے خطبہ دینے سے بھی خطبہ کی سنت اور عید کی نماز ادا ہوجائے گی، اگرچہ ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 162):

"(لاينبغي أن يصلي غير الخطيب)؛ لأنهما كشيء واحد (فإن فعل بأن خطب صبي بإذن السلطان وصلى بالغ جاز) هو المختار".

و في الرد:

"(قوله: لأنهما) أي الخطبة والصلاة كشيء واحد؛ لكونهما شرطًا ومشروطًا، ولا تحقق للمشروط بدون شرطه، فالمناسب أن يكون فاعلهما واحدًا ط (قوله: وصلى بالغ) أي بإذن السلطان أيضًا، والظاهر أن إذن الصبي له كاف؛ لأنه مأذون بإقامة الجمعة لما في الفتح وغيره من أن الإذن بالخطبة إذن بالصلاة وعلى القلب اهـ فيكون مفوضًا إليه إقامتها ولأن تقريره فيها إذن له بإنابة غيره دلالة لعلم السلطان بأنه لاتصح إمامته نعم على القول باشتراط الأهلية وقت الاستنابة لايصح إذنه بها ولا بد له من إذن جديد بعد بلوغه، والله أعلم. [تنبيه]

ذكر الشرنبلالي وغيره، أن هذا الفرع صريح في الرد على صاحب الدرر في عدم تجويزه استنابة الخطيب غيره للصلاة قبل سبق الحدث، وفيه نظر إذ ليس صريحًا في أن البالغ صلى بدون إذن السلطان بل الظاهر أنه بإذنه صريحًا أو دلالةً كما قررناه، فتدبر، ثم رأيت ح ذكر نحوه (قوله: هو المختار) وفي الحجة أنه لايجوز، في فتاوى العصر: فإن الخطيب يشترط فيه أن يصلح للإمامة، وفي الظهيرية: لو خطب صبي اختلف المشايخ فيه والخلاف في صبي يعقل اهـ والأكثر على الجواز، إسماعيل".

الفتاوى الهندية (1/ 147)

"و لاينبغي أن يصلي غير الخطيب، كذا في الكافي."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 166):

"(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها.
(قوله: فإنها سنة بعدها) بيان للفرق وهو أنها فيها سنة لا شرط وأنها بعدها لا قبلها بخلاف الجمعة. قال في البحر: حتى لو لم يخطب أصلا صح وأساء لترك السنة"
.

(وکذا فی فتاوی محمودیہ 8/268)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں