بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ہی گھر کے شرکاء میں قربانی کے گوشت کی تقسیم کا حکم


سوال

اگر ایک ہی گھر سے بھائی سات حصوں کا ایک جانور ذبح کریں تو  کیا ان کا بھی ذبح کے بعد 7 حصے الگ کرنا ضروری ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر قربانی میں شریک تمام افراد اس بات پر راضی ہوں کہ گوشت کو تقسیم نہ کیا جائے، بلکہ ایک ہی جگہ پر پکا کر کھایا جائے یا صدقہ کردیا جائے تو یہ جائز ہے،  تقسیم کی اور سات حصے بنانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر کوئی بھی ایک شریک اس کے خلاف ہو اور وہ اپنا حصہ تقسیم کرکے لینا چاہے تو پھر وزن کرکے برابری کے ساتھ تقسیم کرنا ضروری ہوگا، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں ہے چاہے شرکاء کمی زیادتی پر راضی ہی کیوں نہ ہوں، البتہ  اگر دیگر اعضاء مثلاً کلہ، پائے،  وغیرہ کو بھی گوشت کے ساتھ رکھ کر تقسیم کرلیا جائے تو پھر تول کر تقسیم کرنا لازم نہیں ہوگا، بلکہ اندازے  سے کمی بیشی کے ساتھ تقسیم کرنا بھی جائز ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويقسم اللحم وزناً لا جزافاً إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد) صرفاً للجنس لخلاف جنسه.

(قوله: ويقسم اللحم) انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لا تشترط لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت. وفي فتاوى الخلاصة والفيض: تعليق القسمة على إرادتهم، وهو يؤيد ما سبق غير أنه إذا كان فيهم فقير والباقي أغنياء يتعين عليه أخذ نصيبه ليتصدق به اهـ ط. وحاصله أن المراد بيان شرط القسمة إن فعلت لا أنها شرط، لكن في استثنائه الفقير نظر إذ لايتعين عليه التصدق كما يأتي، نعم الناذر يتعين عليه فافهم (قوله: لا جزافًا) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلا يجوز تمليكه مجازفة.
وأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لا يحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لاتصح اهـ وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لايصح ولايحل لفساد المبادلة خلافًا لما بحثه في الشرنبلالية من أنه فيه بمعنى لا يصح ولا حرمة فيه (قوله: إلا إذا ضم معه إلخ) بأن يكون مع أحدهما بعض اللحم مع الأكارع ومع الآخر البعض مع البعض مع الجلد عناية." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ج:6 ، ص:317، ط:دار الفكر-بيروت)
  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201780

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں