بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ہفتے کے لیے مدرسہ میں امتحان دینے جانے والے طالب علم کے مسافر ہونے کی تفصیل


سوال

اگرایک طالب علم ایک  ہفتے کے لیے  اپنے مدرسے  میں امتحان کے لیے آجائے تومسافر شمار ہوگا یا مقیم؟

جواب

واضح رہے کہ کتب فقہ  کی عبارت "وطن الإقامة يبطل بمثله و بالسفر و بالأصلي"  میں سفر سے وطنِ اقامت کے بطلان کا جو ذکر ہے، وہ اپنے عموم پر نہیں ہے،  بلکہ اس میں کچھ تفصیل ہے۔ 

وہ تفصیل یہ ہے کہ وطنِ اقامت ہر سفر سے باطل نہیں ہوتا،  بلکہ اس سفر سے باطل ہوتا ہے  جس میں آدمی اپنے ہم راہ  رہائشی سامان بھی لے جائے اور اس وطنِ اقامت میں اس کی دوبارہ آنے کی نیت نہ ہو اور اگر وطنِ اقامت میں آدمی اپنا رہائشی سامان چھوڑ کر جاتا ہے  اور  اس کی دوبارہ وہاں آنے کی نیت ہے تو ایسی صورت میں سفر کرنے سے وطنِ اقامت باطل نہیں ہوتا،  جیسا کہ بدائع الصنائع میں  وطنِ اقامت  کے سفر سے باطل ہونے کی تعلیل  "فإذا سافر منه يستدل به على قضاء حاجته فصار معرضًا عن التوطن به، فصار ناقضًا له دلالةً" سے معلوم ہوتا ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ طالب علم کا مدرسہ شرعی طور  پر سفر کی مسافت پر ہو اور  وہ پہلے مدرسہ میں مقیم رہ چکا تھا (یعنی کم از کم ایک مرتبہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ مسلسل قیام کیا ہو) اور  وہاں سے اپنا سامان نہیں ہٹایا تھا تو اس صورت میں  وہ مقیم ہوگا۔ نیز اگر مدرسہ شرعی طور پر سفر کی مسافت پر نہ ہو تو سامان ہٹانے کی صورت میں بھی مقیم ہوگا۔

اور اگر مدرسہ شرعی طور پر سفر کی مسافت پر ہو اور طالب علم پہلے مدرسہ میں مقیم نہ رہا ہو یا مقیم تو رہا ہو،  لیکن چھٹیوں میں اپنا سارا سامان اٹھا کر چلا گیا ہو تو ایسی صورت میں وہ مدرسے  میں ایک ہفتہ کی رہائش کی نیت سے رہنے پر مسافر ہوگا۔

بدائع الصنائع کی عبارت ملاحظہ ہو:

"(ووطن) الإقامة ينتقض بالوطن الأصلي؛ لأنه فوقه، وبوطن الإقامة أيضًا؛ لأنه مثله، والشيء يجوز أن ينسخ بمثله، وينتقض بالسفر أيضًا؛ لأن توطنه في هذا المقام ليس للقرار ولكن لحاجة، فإذا سافر منه يستدل به على قضاء حاجته فصار معرضًا عن التوطن به، فصار ناقضًا له دلالةً."

(1 / 104، دار الکتب العلمیۃ)

البحر الرائق کی عبارت ملاحظہ ہو:

"وفي المحيط: و لو كان له أهل بالكوفة، و أهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة و بقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لاتبقى وطنًا له؛ لأنها إنما كانت وطنًا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنًا له، وقيل: تبقى وطنًا له؛ لأنها كانت وطنًا له بالأهل والدار جميعًا فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل و إن أقام بموضع آخر."

(2 / 147، دار الکتب الاسلامی)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر   میں ہے:

"وفي محيط السرخسي: لو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة و بقي له دور و عقار بالبصرة قيل: البصرة لاتبقى وطنًا له؛ لأنه إنما كانت وطنًا له بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة و لم يكن عقار صارت وطنًا له، و قيل: تبقى وطنًا له؛ لأنه كانت وطنًا له بالأهل والدار جميعًا فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن كموطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل."

(1 / 164، دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں