بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک گروپ میں شاعری کی وجہ سے سے ہونے والے تنازعہ کا حکم


سوال

ایک شخص نے جگر مراد آبادی کی غزل ایک گروپ میں شیئر کی جس کا ایک شعر تھا: ’’یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہاں سے،  جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے‘‘ ، اس کے جواب میں  ایک شخص نے ’’جگر ‘‘ کی ایک نعت شیئر کی،’’اک رند اور مدحتِ سلطانِ مدینہ ‘‘ اور  ساتھ کہا  کہ شراب سے معمور غزل شیئر کرنے سے یہ نعت شیئر کرنا بہتر ہے، کیوں کہ شراب حرام ہے اور یہ شعر قرآن کے خلاف ہے، نعت شیئر کر کے یہ بات اشارۃً  سمجھائی  ، اور اس شخص نے کہا کہ اور   بڑی بات کر دی کہ ہم سب کافر ہیں اور آپ اکیلے مسلمان ہو،  خدا کا واسطہ ہے آپ اپنا علم اپنے پاس سنبھال کر رکھیں ہمیں آپ جیسا متکبر عالم نہیں چاہیے ، اور زیادہ سیانا نہ بناکرو ، اپنے کام سے کام رکھا کرو ، اس میں قصور کس کا ہے اور شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے، آگاہ کرنے والا خود ایک مدرسے کا فارغ التحصیل عالم ہے۔

جواب

شعراء عموماً اپنے اشعار میں شراب، اور دیگر غیر شرعی اور غیر اخلاقی امور کا ذکر کرتے ہیں، لیکن اس کی وجہ سے شعر گوئی ممنوع نہیں قرار  پاتی، بلکہ کسی مفید غرض مثلاً   ادب کی تعلیم کے لیے، یا زبان کے ذوق کو پروان چڑھانے کے لیے شعر پڑھنے پڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور علماء اس کی  اجازت دیتے ہیں، جیسا کہ درسِ نظامی میں بھی عربی ادب کی تعلیم کے لیے جاہلی ادب کے معلقات سبعہ شاملِ درس ہیں، جن میں شراب کا بکثرت تذکرہ موجود ہے،  اس لیے کسی شعرسے محض اس بنا پر روکنا درست نہیں ہے کہ اس میں شراب کا ذکر ہوا ، اور ایسے شعر  کو قرآن کے مخالف کہنا بھی درست نہیں ہے،  دنیا کی شرا ب اور جنت کی  شراب کے حکم میں فرق ہے، دنیا کی شراب حرام ہے، اور جنت کی شراب حلال ہے، اور اسی طرح دونو ں شرابوں کی صفات میں بھی فرق ہے، دنیا کی شراب میں گندگی ، بدبو او ر مستی پائی جاتی ہے، جب کہ جنت کی شراب میں لذت اور عمدگی پائی جاتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عالم شخص کی یہ بات بالکل درست ہے کہ شراب کے تذکرہ والی غزل سے نعت شئیر کرنا بہتر ہے، تاہم ان کا اسی شاعر کی ایک غزل شئیر کرنے سے سامنے والے کو روکنا بظاہر حکمت پر مبنی نہیں تھا، اور اس کے جواب میں  ان کو سامنے والے شخص نے جو کہا ہے وہ بھی اخلاق کی حدود سے عاری جملہ ہے، اس لیے اس معاملہ میں کسی کا قصور تلاش کرنے کی بجائے مناسب طرزِ عمل یہ ہے ہر ایک  دعوتی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے، کسی اچھی بات کو شیئر کرسکتے ہیں اور بری بات سے روک سکتے ہیں، اور دعوت کے لیے کسی کا رویہ تحکّمانہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ حکیمانہ اور مخلصانہ ہونا چاہیے ، چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب ؒ معارف القرآن میں دعوت کا طریقہ بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’حکمت سے مراد وہ بصیرت ہے جس کے ذریعہ انسان مقتضیاتِ احوال کو معلوم کرکے اس کے مناسب کلام کرے، وقت اور موقع پر بار نہ ہو، نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کی جگہ سختی اختیار کرے، اور جہاں یہ سمجھے کہ صراحۃً کہنے میں مخاطب کو شرمندگی  ہوگی، وہاں اشارات سے کلام کرے، یاکوئی ایسا عنوان اختیار کرےکہ مخاطب کو نہ شرمندگی ہو اور نہ اس کے دل میں اپنے خیال پر جمنے کا تعصب پیدا ہو‘‘۔

(سورۃ النحل، آیت نمبر: ۱۲۵، ج: ۵، ط: ادارہ معارف القرآن)

قرآنِ کریم میں ہے:

"وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ".( سورة محمد:15)

ترجمہ: ’’اور بہت سی نہریں ہیں شراب کی جو پینے والوں کی بہت لذیذ معلوم ہوگی‘‘۔(بیان القرآن)

وفيه أيضا:

" لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ".(الصافات:47)

ترجمہ: ’’نہ اس میں دردِ سر ہوگااور نہ اُس سے عقل میں فتورآوے گا‘‘۔(بیان القرآن)

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"(وعن أبي بن كعب - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «‌إن ‌من ‌الشعر حكمة» ) أي: ما فيه حق وحكمة، أو قولا صادقا مطابقا للحق، وقيل: أصل الحكمة المنع، فالمعنى: ‌أن ‌من ‌الشعر كلاما نافعا يمنع عن السفه والجهل، وهو ما نظمه الشعراء من المواعظ والأمثال التي ينتفع به الناس، فإن الشعر كلام، فحسنه كحسن الكلام. (رواه البخاري)"

(كتاب الآداب ،باب البيان والشعر، ج:7، ص:3012، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں