بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک گواہ اور قاضی/نکاح خواں کی موجودگی میں نکاح کرنا


سوال

میں ایک 20 سالہ خاتون ہوں، اور مجھے فتو ی کی اشد ضرورت ہے، مسئلہ درج ذیل ہے:

ایک سال پہلے جب میں 19 سال کی تھی، اور میرا ایک کزن 22 سال کا تھا، تو ہم بہت قریب ہو گئے، لیکن ہم اپنے تعلق کو حلال کرنا چاہتے تھے، اس نے اپنے 2 دوستوں کو بطور گواہ، اور اپنےتیسرے  دوست کو جو کہ ایک مقامی مدرسے میں طالب علم تھا، قاضی/نکاح خواں کے طور پر بلوایا، میں اور میرا کزن اس کے دوست کے گھر گئے، اور 1 کمرے میں میں اور میرا کزن  قاضی اور اس کے ایک دوست بطور گواہ موجود تھے،ان کی موجودگی میں تین بار قبول ہے کہتے ہوئے میرا نکاح ہوا، دوسرا گواہ دوسرے کمرے میں تھا، اور اس نے نکاح کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا،اور نہ سنا صرف جانتا تھا کہ نکاح ہو رہا ہے،ان لوگوں کے علاوہ کسی کو بھی نکاح کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا،تعلیم کے لحاظ سے میں ایک سرکاری ادارے سے ایم بی بی ایس کر رہی ہوں، ڈاکٹر بننے کے لیے،اور وہ ایک سرکاری ادارے سے ڈی فارمیسی کی تعلیم حاصل کر رہا ہے، وہ اسی خاندان اور نسب سے ہے، جس سے میں ہوں،اس کا خاندان مالی طور پر مجھ سے کم ہے، کیوں کہ میرے والد زیادہ کماتے ہیں،میرے پاس بیرون ملک کی شہریت بھی ہے، اور وہ نہیں رکھتا، دین کے معاملے میں دونوں گھرانے ایک جیسے ہیں،میرے والد نے مجھے کسی اور سے شادی کرنے پر مجبور نہیں کیا، انہوں نے مجھے لالچ کی وجہ سے نہیں رکھا ، وہ ذہنی طور پر بھی صحت مند ہیں،ہم نے خفیہ نکاح صرف اس لیے کیا کہ ہم نے سوچا کہ ہمارے والدین دونوں کے اس وجہ سے راضی نہیں ہوں گے کہ ابھی ہم چھوٹے ہیں ،اور ہماری تعلیم مکمل نہیں ہوئی۔

مختلف ذاتی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کی وجہ سے کل میرے کزن نے مجھے 3 طلاق دی،لیکن ہم دونوں کو اس کے فوراًبعد  95 فیصد  لوگوں نے کہا کہ ولی کے بغیرنکاح نہیں ہوا۔

بعد میں پچھتاوا ہوا۔ یوٹیوب پر پاکستانی مفتیوں کی اکثریت کو سننے کے بعد پتہ چلا کہ سرے سے  یہ نکاح غلط ،اور باطل ہے ،اور ناجائز ہے، اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارا نکاح جائز تھا ؟اور مجھے دی گئی تین طلاق بھی جائز ہیں یا نہیں؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا دوبارہ نکاح کرنے کے لیے ہمیں حلالہ کرنا ہوگا ؟ کیوں کہ ہم نے ایک دوسرے سے ہمبستری نہیں کی ہے، لیکن ہم اکثر ایک پرائیویٹ کمرے میں ملتے تھے ،جہاں یہ ممکن تھا،اس طرح سے کہ میرے ہی گھر میں وہ چھپ کر آ تا، اور میں دروازہ کنڈی کر لیتی تھی،گنجائش ہوتی تھی کہ کبھی بھی کوئی بھی اندر آنے کی کوشش کرے، اور اس کو فوراًبھاگنا پڑتا۔ اگر حلالہ ضروری نہیں ہے، تو کیا میں اپنے ولی کی اجازت سے اس سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہوں؟  ہم دونوں حنفی ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ عقدِ نکاح کے انعقادکے لیے مجلسِ عقدِ نکاح میں عاقدین(لڑکالڑکی)  کےعلاوہ  2مسلمان مرد  یا ایک مسلمان مرد اور 2 مسلمان عورتوں کا  بطورگواہ ہوناضروری ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کے نکاح کے وقت کمرہ میں  تین دوستوں میں سے دو دوست موجود تھے،ان دونوں میں سے ایک دوست نے سائلہ اور اس کزن کی موجودگی میں دونوں سے نکاح کا ایجاب وقبول کروایا تھا،تو یہ نکاح خوان دوست بھی گواہوں  میں شمار ہو ں گے،اس طرح تیسرا شخص کمرہ سے باہر ہونے کے باوجود یہ نکاح  دو گواہوں کی موجودگی ہی میں ہوا،اور شرعاً درست ہوا تھا۔

پھر سائلہ کوشوہر نے تین طلاق خلوت صحیحہ(کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات) کے  بعد دی ہے،اس سے تینوں طلاقیں سائلہ پر واقع ہو گئی  ہیں،اورسائلہ  شوہر پر حرمت مغلظ کے ساتھ حرام ہو گئی ہے،اب رجوع جائز نہیں ہے،اورنہ ہی دوبارہ آپس میں نکاح  ہو سکتا،لہٰذا سائلہ پرعدت(تین ماہواری )گزارنا  لازم ہے، اور عدت گزارنے کے بعد ہی دوسری جگہ نکاح کرسکے گی،اگرمطلقہ(سائلہ) عدت گزارنے کے بعد  کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے،اور  نکاح کے بعد دوسرے شوہر سے صحبت (جماعی تعلق) ہو جائے،اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اسے  (سائلہ) کوطلاق دے دیں، یا اُس کا انتقال  ہو جائے، تو اُس کی عدت  گزار کر  سائلہ دوبارہ مذکورہ کزن کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌و) ‌شرط (‌حضور) ‌شاهدين(حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا)على الاصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب ."

(کتاب النكاح، ج:3 ص:21،22 ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق)....(بعد الدخول حقيقة، أو حكما)أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية."

(کتاب الطلاق، باب العدة، ج:3 ص:504،505 ط: سعید)

 فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"وإذا قال لامرأته أنت طالق وطالق وطالق ولم يعلقه بالشرط إن كانت مدخولة طلقت ثلاثا."

(کتاب الطلاق، الفصل الأول فی الطلاق الصریح، ج:1 ص:355 ط: دارالفکر)

مجمع الأنهر میں ہے:

"(و كذا) يصح العقد (لو زوج الأب بالغة عند رجل) واحد (إن حضرت) البالغة (صح) ؛ لأنه إذا حضرت صارت كأنها عاقدة والأب وذلك الرجل شاهدان."

(کتاب النکاح، شروط صحة النكاح، ج:1 ص:322 ط: دار الإحیاء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں