بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک گاؤں میں دوسری عیدگاہ بنا کرعید کی نماز شروع کرانا


سوال

ایک گاؤں جس کی کل آبادی تقریباً  1500  اشخاص  پر  مشتمل ہے، رقبہ تقریباً پانچ مربع کلو میٹر ہے، اس میں ایک عید گاہ موجود ہے، اطراف کے دیہاتوں میں اپنی اپنی عیدگاہیں موجود ہیں۔ چند لوگ کچھ ذاتی مفاد  کے لیے اس گاؤں میں مزید ایک عید گاہ بنانے کے خواہش مند ہیں جب کہ جس زمین کا انتخاب عید گاہ  کے لیے کیاگیا ہے وہ  زمین سرکاری (عوامی چراگاہ) ہے جس پر حکومت کی اجازت غیر ممکن ہے۔  جس جگہ کا انتخاب کیا گیا ہے  اس کے تین طرف ایک ایک کلومیٹر تک کوئی آبادی نہیں ہے جب کہ ایک طرف چند گھر موجود ہیں، اور سب ہی اطراف میں تقریباً دو کلومیٹر تک کوئی بازار یا چند دوکانیں بھی نہیں ہیں۔ کیا مذکورہ صورت میں دوسری عیدگاہ کی شرعی اجازت ہے؟

جواب

   جمعہ و عیدین قائم کرنے کی شرائط میں سے ایک شرط شہر،  مضافاتِ شہر، قصبہ یا بڑے گاؤں کا ہونا ہے، جس میں تمام ضروریاتِ   زندگی  یعنی   بازار ،ڈاکخانہ ، شفاخانہ ،اور  تھانہ  ،کچہری  وغیرہ موجود ہوں اور  اس گاؤں کی کل آبادی کم از کم تین  ہزار افراد پر مشتمل ہو،مذکورہ شرائط کی عدم موجودگی کی صورت میں جمعہ کی نماز ادا کرنا درست نہیں اور وہاں عید کی نماز بھی ادا نہیں کی جائے گی۔ جس گاؤں کا سوال  میں ذکر ہے اس میں جمعہ و عیدین کے قیام کی  شرائط موجود نہیں ہے ۔ لیکن  چوں کہ پرانے عیدگاہ  میں   عرصے سے نماز کی ادائیگی ہورہی ہے اس کو ختم کرنے میں فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو تو  اس کو برقرار رکھا جائے اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہا جائے۔دوسری عیدگاہ کی بظاہر ضرورت نہیں ہے؛ کیوں کہ جمعہ اورعیدین کی شرائط  پہلے  سے  مفقود   ہیں ، سرکاری  زمین پر عیدگاہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سرکار سے اجازت لے لی جائے، لیکن بہر صورت کوئی بھی فریق  اسے فتنہ  و فساد کا  ذریعہ  نہ  بنائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 166):

"(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها.

 (قوله: بشرائطها) متعلق بتجب الأول، والضمير للجمعة وشمل شرائط الوجوب وشرائط الصحة لكن شرائط الوجوب علمت من قوله على من تجب عليه الجمعة، فبقي المراد من قوله: بشرائطها القسم الثاني فقط".

کفایت المفتی میں ہے:

’’گاؤں میں جمعہ کا صحیح ہونا یا نہ ہونا مجتہدین میں مختلف فیہ ہے، حنفیہ کے نزدیک جواز جمعہ کے لیے  مصر ہونا شرط ہے لیکن مصر کی تعریف میں اختلاف عظیم ہے، تاہم جس مقام میں کہ زمانہ قدیم سے جمعہ قائم ہے وہاں جمعہ کو ترک کرانے میں جو مفاسد ہیں وہ ان مفاسد سے بدرجہا زیادہ سخت ہیں جو سائل نےجمعہ پڑھنے کی صورت میں ذکر کیے ہیں، جو لوگ جمعہ کو جائز سمجھ کر جمعہ پڑھتے ہیں ان کا فرض ادا ہو جاتا ہے، نفل کی جماعت یا جہربقرأت نفل نہار یا ترک فرض لازم نہیں آتا۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘‘. (کتاب الصلاۃ،ج:۳/ ۲۳۱ )

مزید تفصیل کے  لیے درج ذیل لنک  دیکھیے:

جس گاؤں میں جمعہ کی شرائط پوری نہ ہوں وہاں جمعہ و عیدین کی جماعت کروانے کا حکم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں