بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک گائے میں سات لڑکوں کا عقیقہ کرنا


سوال

 کیا ایک بڑے جانور میں سات لڑکوں کا عقیقہ کیا جاسکتا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ بچے کی ولادت پر لڑکے کے لیے  حسب شرائط دو چھوٹے جانور یا بڑے جانور میں دوحصے کرنا مستحب  ہے،البتہ اگر کوئی لڑکے کے لیے ایک چھوٹے جانور کی قربانی کرے یا بڑے جانور میں ایک حصہ  کی قربانی کرے تو عقیقہ کی سنت ادا ہو جائے گی،لہذا صورتِ مسئولہ میں ایک بڑے جانور میں 7 لڑکوں کے عقیقہ کی نیت کرنے سے ساتوں کے عقیقہ کی سنت ادا ہو جائے گی۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن علي بن أبي طالب - رضي الله عنه، قال: عق رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن الحسن بشاة وقال: يا فاطمة احلقي رأسه، وتصدقي بزنة شعره فضة " فوزناه فكان وزنه درهما أو بعض درهم . رواه الترمذي

(عن الحسن بشاة) ، الباء للتعدية أو مزيدة. في شرح السنة: اختلفوا في التسوية بين الغلام والجارية، وكان الحسن وقتادة لا يندبان على الجارية عقيقة، وذهب قوم إلى التسوية بينهما عن كل واحد بشاة واحدة لهذا الحديث، وعن ابن عمر - رضي الله عنهما: كان يعق عن ولده بشاة الذكور والإناث، ومثله عروة بن الزبير، وهو قول مالك. وذهب جماعة إلى أنه يذبح عن الغلام بشاتين، وعن الجارية بشاة. قلت: أما نفي العقيقة عن الجارية فغير مستفاد من الأحاديث، وأما الغلام فيحتمل أن يكون أقل الندب في حقه عقيقة واحدة وكماله ثنتان، والحديث يحتمل أنه لبيان الجواز في الاكتفاء بالأقل، أو دلالة على أنه لا يلزم من ذبح الشاتين أن يكون في يوم السابع، فيمكن أنه ذبح عنه في يوم الولادة كبشا وفي السابع كبشا، وبه يحصل الجمع بين الروايات، أو عق النبي - صلى الله عليه وسلم - من عنده كبشا. وأمر عليا أو فاطمة بكبش آخر، فنسب إليه - صلى الله عليه وسلم - أنه عق كبشا على الحقيقة وكبشين مجازا، والله أعلم."

(كتاب الصيد والذبائح،باب العقيقة،ج:7،ص:2689،رقم:4154،ط:دار الفكر)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"(سوال 92)لڑکے کے لیے ایک بکرا کافی ہے یا نہیں ؟

(الجواب)حیثیت ہو تو لڑکے کے لیےدو بکرے ،دو بھیڑے،دو دنبے یا قربانی کی گائے یا اونٹ یا بھینس یا کٹڑے(بھینس کا نر بچہ) میں دو  حصے افضل ہیں،ورنہ ایک بکرا،بھیڑ یا بڑے جانور میں  سے ایک حصہ بھی کافی ہے،اس سے عقیقہ ہو جاتا ہے۔"

(ج:1،ص:61،ط:دار الاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

"جواب(316)ایک گائے میں عقیقہ کے سات حصے ہو سکتے ہیں ،جس طرح قربانی کے  سات  حصے  ہو سکتے  ہیں۔"

(ج:8،ص:240،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں