بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک گائے اور پانچ سو روپے ملکیت میں ہونے کی صورت میں صاحبِ ہونے کا حکم


سوال

ایک عورت شادی شدہ ہے اور اس کی ملکیت میں ایک گائے ہے  جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زائد ہے، اور پانچ سو روپے بھی اس کی ملکیت میں ہیں۔ کیا اب اس عورت پر قربانی کرنا واجب ہوگی یا نہیں؛ کیوں کہ بظاہر تو گھر کے خرچے کی ذمہ داری بھی اس پر نہیں ہے  اور اس کے ساتھ  ساتھ  یہ نصاب کی بھی مالک ہے؟  اور اگر پانچ سو روپے اس کی ملکیت میں نہ ہوں اور صرف ایک گائے اس کی ملکیت میں ہو  تو  اس صورت میں اس پر قربانی واجب ہو گی یا نہیں، جب کہ صرف گائے کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی سے زائد بن رہی ہو؟

نوٹ:  یہ الجھن اس لیے پیش آرہی  ہے کہ عورت کا سارا خرچہ شوہر کے ذمہ میں ہے  اور بچوں کا خرچہ بھی اس عورت کے شوہر کے ذمہ میں ہے!

جواب

واضح رہے کہ گائے اگر تجارت کی نیت سے نہ خریدی ہو بلکہ وہ از خود چرنے والی ہو تو زکاۃ کے باب میں اس کا مالک شرعاً صاحبِ نصاب اس وقت ہوتا ہے، جب کہ اس کی ملکیت میں تیس گائیں ہو، پس اگر کسی کی ملکیت میں تیس گائیوں سے کم مثلًا ایک ہی گائے ہو تو وہ شرعاً صاحبِ نصاب شمار نہ ہوگا، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون ایک گائے اور پانچ سو روپے کی وجہ سے صاحبِ نصاب شمار نہ ہوں گی اور اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔

اور قربانی واجب ہونے کے لیے صدقہ فطر کا نصاب ضروری ہے، یعنی اگر کسی کی ملکیت میں ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان عید الاضحیٰ (یعنی 10 ذوالحجہ کی صبح صادق سے لے کر 12 ذوالحجہ کا سورج غروب ہونے تک کے درمیان) میں موجود ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر قربانی واجب ہوتی ہے، پس اگر مذکورہ گائے کا دودھ وغیرہ گھر میں استعمال ہوتاہے تو یہ زائد از ضرورت مال نہیں ہے، لہٰذا مسئولہ صورت میں اس پر قربانی واجب نہ ہوگی۔ البتہ اگر وہ قربانی کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔

النتف في الفتاوي  میں ہے:

"وأما زَكَاة الْبَقر فَلَا صَدَقَة فِيهَا حَتَّى تبلغ ثَلَاثِينَ فإذا بلغت ثَلَاثِينَ فَفِيهَا تبيع أَوْ تبيعة إلى أَرْبَعِينَ فَفِيهَا مُسِنَّة إلى سِتِّينَ فَفِيهَا تبيعان، وَ لَيْسَ فِي الْخمسين شَيْء فِي قَول أبي يُوسُف وَمُحَمّد، وَ فِي قَول أبي حنيفَة فِيهَا مُسِنَّة، و أيضا عَنهُ فإنه قَالَ: إذا بلغ أربعين فَفِيهَا مُسِنَّة وَلَيْسَ فِي الزِّيَادَة شَيْء حَتَّى تبلغ خمسين فإذا بلغت خمسين فَفِيهَا مُسِنَّة وَربع أَوْ ثلث تبيع ثمَّ لَيْسَ فِي الزِّيَادَة شَيْء حَتَّى تبلغ سِتِّينَ فَفِيهَا تبيعان.

وأيضا عَنهُ قَالَ: لَيْسَ فِي الزِّيَادَة على الأربعين شَيْء حَتَّى تبلغ خمسين فإذا بلغت خمسين فَفِيهَا مُسِنَّة وَربع مُسِنَّة أَو ثلث تبيع ثمَّ لَيْسَ فِي الزِّيَادَة على السِّتين شَيْء حَتَّى تبلغ سبعين فَفِيهَا تبيع ومسنة، ثمَّ بعد ذَلِك فِي كل أربعين مُسِنَّة وَفِي كل ثَلَاثِينَ تبيع وَهُوَ حِسَاب لَايَنْقَطِع". ( كتاب الزكوة، زَكَاة الْبَقر، ١ / ١٧٥ - ١٧٦، ط: دار الفرقان - عمان الأردن) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200207

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں