فقہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی نے کسی مسکین کو زکوٰۃ دی اور وہ صاحب نصاب بن گیا، تو دوسرے شخص کا اس مسکین کوزکوٰۃ دینا جائز نہیں ، مثلاً اگر کوئی شخص کسی مستحق کو 200,000 زکوٰۃ دے، تو وہ مسکین صاحب نصاب ہو گیا، اس لیے اس شخص کی زکوٰۃ صحیح ہو گئی، اس کے بعد ایک اور شخص نے بھی دو لاکھ زکوٰۃ اسی غریب کو دی، تو اگر اس دوسرے شخص کو پہلے شخص کی زکوٰۃ کی معلومات ہوں، تو اس دوسرے شخص کی زکوٰۃ صحیح نہیں ہے، کیوں کہ اس نے معلومات کے باوجود صاحب نصاب کو زکات دی، لیکن اگر یہ دونوں نے یہ طریقہ اختیار کریں کہ دو دو لاکھ اکٹھا کرکے چار لاکھ ایک ساتھ وکیل کے ذریعے اسی ایک غریب کو دے دیں، تو یہ طریقہ درست ہے؟ کیا اس طرح دونوں کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟
اسی طرح اگر محلے کے چندلوگ امام کو صدقہ فطر دیں تو وہ صاحب نصاب بن جائے گا، پھر محلہ کے اور لوگوں کا امام کو صدقہ فطر دینا درست نہیں ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک غنی صاحب نصاب کو صدقہ فطر دیتے ہیں، لہٰذا اہل محلہ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ ایک شخص کو اپنا وکیل مقرر کرتا ہے اور محلے کے تمام لوگ اس وکیل کے ساتھ صدقہ فطر جمع کرتے ہیں ۔پھر اہل محلہ کے وکیل یہ سارا صدقہ فطر جمع کر کے امام کو دیتے ہیں، تین لاکھ کے لگ بھگ ہو گی، کیا طریقہ درست ہے؟ استدلال اس عبارت سے کرتے ہیں: "(و كره إعطاء فقير نصاباً) أو أكثر (إلا إذا كان) المدفوع إليه (مديوناً أو) كان (صاحب عيال) بحيث (لو فرقه عليهم لايخص كلا) أو لايفضل بعد دينه (نصاب) فلايكره، فتح". (الدر المختار مع رد المحتار،353/2، سعید)
اصولی طور پر مسئلہ اسی طرح ہے کہ کسی غریب شخص کو اتنی زکات دی جائے کہ وہ صاحبِ نصاب بن جائے، مکروہ ہے، البتہ اگر کسی ضرورت کی وجہ سے یک مشت اس کو اتنا مال دیا جارہا ہے، تو بلا کراہت یہ جائز ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص کو اتنا مال دیا جائے جو نصاب کے بقدر یا اس سے زیادہ ہو، یا امام صاحب کو اتنا مال دیا جائے جس سے وہ صاحبِ نصاب ہوجائیں، تو ایسا کرنا بلا ضرورت مکروہ ہے، البتہ اگر ان کی کوئی ضرورت ہو، یا وہ اہل و عیال والے ہوں کہ اپنے آل اولاد پر یہ مال تقسیم کریں اور ہر ایک کے حصے میں نصاب سے کم مال آئے تو بلا کراہت ایسا کرنا جائز ہے۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"(وكره إعطاء فقير نصابا) أو أكثر (إلا إذا كان) المدفوع إليه (مديونا أو) كان (صاحب عيال) بحيث (لو فرقه عليهم لا يخص كلا) أو لا يفضل بعد دينه (نصاب) فلا يكره فتح.
(قوله: وكره إعطاء فقير نصابا أو أكثر) وعن أبي يوسف لا بأس بإعطاء قدر النصاب وكره الأكثر؛ لأن جزءا من النصاب مستحق لحاجته للحال والباقي دونه معراج وبه ظهر وجه ما في الظهيرية وغيرها عن هشام قال: سألت أبا يوسف عن رجل له مائة وتسعة وتسعون درهما فتصدق عليه بدرهمين قال: يأخذ واحدا ويرد واحدا اهـ فما في البحر والنهر هنا غير محرر فتدبر وبه ظهر أيضا أن دفع ما يكمل النصاب كدفع النصاب. قال في النهر: والظاهر أنه لا فرق بين كون النصاب ناميا أو لا حتى لو أعطاه عروضا تبلغ نصابا فكذلك ولا بين كونه من النقود أو من الحيوانات حتى لو أعطاه خمسا من الإبل لم تبلغ قيمتها نصابا كره لما مر اهـ. وفي بعض النسخ تبلغ بدون لم والأنسب الأول."
(كتاب الزكات، ج:2، ص:353، ط:سعيد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"والدفع إلى الواحد أفضل إذا لم يكن المدفوع نصابا كذا في الزاهدي ويكره أن يدفع إلى رجل مائتي درهم فصاعدا، وإن دفعه جاز كذا في الهداية. هذا إذا لم يكن الفقير مديونا فإن كان مديونا فدفع إليه مقدار ما لو قضى به دينه لا يبقى له شيء أو يبقى دون المائتين لا بأس به، وكذا لو كان معيلا جاز أن يعطى له مقدار ما لو وزع على عياله يصيب كل واحد منهم دون المائتين كذا في فتاوى قاضي خان وندب الإغناء عن السؤال في ذلك اليوم كذا في التبيين."
(كتاب الزكات، ج:1، ص:188، ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101513
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن