بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک درود شریف سے متعلق


سوال

میں نے ایک پرانی کتاب میں ایک درود پاک لکھا دیکھا جس کے الفاظ ( اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیدنَا رَسُولِکَ مُحَمَّد ) لکھے تھے (جس میں رسولک پہلے لکھا گیا) لیکن میں نے اس طرح درود کے صیغے بہت کم ہی دیکھےہیں، تو کیا اس طرح سے پڑھنا ٹھیک ہے ؟ دوسرا یہ كہ اگر اس کے بعد دوسرا صیغہ ملایا جاۓ تو کیا اسم پاک محمدﷺ میں حرف "د" کو تنوین کے ساتھ پڑھا جاۓ "دٍ" یا ساکن پڑھا جاۓ ؟

جواب

1: اس طرح (اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلٰی سَیدنَا رَسُولِکَ مُحَمَّدٍ ) پڑھنا درست ہے۔

2 :  ایسی صورت میں "دال" کو تنوین کے ساتھ پڑھا جائےگا۔

واضح رہے کہ کسی بھی درست مفہوم ومضمون پرمشتمل کلمات  سے درود پڑھا جاسکتا ہے، گو درود شریف کے وہ کلمات اور صیغے بعینہ،  رسول اللہ  ﷺ سے منقول نہ ہوں، اوراس سے حکم کی تعمیل اوردرودوسلام پڑھنے کاثواب حاصل ہوجاتاہے، اسی وجہ سےاہلِ علم سے درودشریف کے بہت سے صیغے اورطریقے منقول ہیں،  علماء نے اس موضوع پر مستقل کتب لکھی ہیں،  تاہم  جوالفاظ خودحضور ﷺ سے منقول ہیں (جیسے کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے آپﷺ سے منقول شدہ تمام الفاظ کو اپنی کتاب"زاد السعید"  میں جمع کیا ہے)  اس کا پڑھنا  زیادہ بابرکت وباعث اجرہے،  پھر  ان میں درودِ ابراہیمی دوسرے درودوں کی بہ نسبت افضل ترین کلمات پر مشتمل ہے، اور اس کے صیغے تمام درودوں سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں،  رسولِ کریم ﷺنے نمازوں کے لیے اسی درورد کا انتخاب فرمایاہے، اسی وجہ سے نمازوں میں اور نماز کے باہر اس درود پاک کا وِرد زیادہ افضل ہے۔

تفسیرمعارف القرآن (مفتی محمدشفیعؒ، المتوفی:1976ء)  میں ہے:

"صلوٰة وسلام کا طریقہ :

صحیح بخاری و مسلم وغیرہ سب کتب حدیث میں یہ حدیث آئی ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ نے فرمایا کہ (جب یہ آیت نازل ہوئی تو) ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ (آیت میں ہمیں دو چیزوں کا حکم ہے صلوٰة وسلام) سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ (کہ  السلام علیك أیها النبي  کہتے ہیں) صلوٰة کا طریقہ بھی بتلا دیجیے۔  آپ نے  فرمایا کہ یہ الفاظ کہا کرو: "اللّھمّ صلّ على محمّد وعلى آل محمّد كما صلّیت على إبراهیم وعلى آل إبراهیم إنّك حمید مجید، اللّهم بارك على محمّد وعلى آل محمّد كما باركت على إبراهیم و على آل إبراهیم إنّك حمید مجید،  دوسری روایات  میں اس میں کچھ  کلمات اور بھی منقول ہیں۔

اور صحابہ کرام کے سوال کرنے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ان کے سلام کرنے کا طریقہ تو تشہد (یعنی التحیات) میں پہلے سکھایا جا چکا تھا کہ  السلام علیك أیها النبي ورحمة اللّه وبركاته  کہا جائے، اس لیے لفظ صلوٰة میں  انہوں نے اپنی طرف سے الفاظ مقرر کرنا پسند نہیں کیا، خود رسول اللہ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کر کے الفاظِ صلوٰة  متعین کرائے؛  اسی لیے نماز میں عام طور پر ان ہی الفاظ کے ساتھ صلوٰة کو اختیار کیا گیا ہے، مگر یہ کوئی ایسی تعیین نہیں جس میں تبدیلی ممنوع ہو، کیوں کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلوٰة یعنی درودشریف کے بہت سے مختلف صیغے منقول و ماثور ہیں، صلوٰة وسلام کے حکم کی تعمیل ہر اس صیغہ سے ہو سکتی ہے جس میں صلوٰة وسلام کے الفاظ ہوں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ الفاظ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعینہ منقول بھی ہوں،  بلکہ جس عبارت سے بھی صلوٰة وسلام کے الفاظ ادا  کیے جائیں اس حکم کی تعمیل اور درود شریف کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے۔  مگر یہ ظاہر ہے کہ جو الفاظ خود آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول  ہیں وہ زیادہ بابرکت اور زیادہ ثواب کے موجب ہیں، اسی لیے صحابہ کرام نے الفاظِ  صلوٰة آپ سے متعین کرانے کا سوال فرمایا تھا۔"

(سورۃ الاحزاب، رقم الآیۃ:56، ج:7، ص:223، ط:مکتبۃ معارف القرآن کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں