بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہم رب محمد و آل محمد صل علی محمد و آل محمد و اجز محمدا صلی اللہ علیہ وسلم ما ہو و اہلہ


سوال

مجھے ایک حدیث کے بارے میں تفصیل چاہیے تھی جس میں درود شریف کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس درود شریف کا ثواب لکھنے میں فرشتوں کو ایک ہزار دن لگ جاتے ہیں، وہ درود شریف یہ ہے ""اَللّٰھُمَّ ربَّ مُحَمَّدٍ  صَلِّ علٰی مُحَمَّدٍ وَّ علٰى آلِ مُحَمِّدٍ وَّاجزِ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّهُ عَلَیهِ  وَسَلَّمَ مَا ھُوَ اَھلُهُ" لیکن اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔

براہِ کرم تفصیل سے راہ نمائی فرما دیں! اور اگر ضعیف ہے تو کیا ثواب اور فضائل کی نیت سے اس حدیث کو لیا جا سکتا ہے؟ اور اگر لیا جاسکتا ہے تو اس کو حدیث کہنا جائز ہوگا یا نہیں؟ کیوں کہ حدیث نبی کریم ﷺ کی  کہی ہوئی بات ہوتی ہے۔

جواب

مذکورہ درود شریف   کو امام ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ نے   درود شریف کے حوالے سے لکھی اپنی تصنیف "الدر المنضود في الصلاة والسلام على صاحب المقام المحمود"میں اور امام سخاوی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف  "القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ" میں نقل کرتے ہوئے   بعض اہلِ علم کے قول کے مطابق اسے افضل ترین درود قرار دیا ہے، جب کہ  امام سیوطی رحمہ اللہ نے "الحاوي للفتاوي"   میں بروایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ   مرفوعاً مذکورہ درود مع فضیلت نقل کیا ہے، تاہم مذکورہ تینوں محدثین نے مذکورہ درود شریف کی روایتی حیثیت سے تعرض نہیں کیا ہے، بلکہ سکوت اختیار کیا ہے، لہذا مذکورہ درود شریف کو بے اصل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، امام سیوطی  رحمہ اللہ نے چوں کہ مرفوعاً نقل کیا ہے،  لہذا اسے حدیثِ رسول صلی اللہ  علیہ وسلم قرار دینا درست ہوگا۔

نیز جمہور محدثین و فقہاءِ کرام   کے نزدیک ضعیف حدیث کو فضائلِ اعمال، ترغیب و ترہیب، قصص اور مغازی وغیرہ میں نقل بھی کیا جاسکتا ہے  اور اس پر عمل بھی جائز ہوتا ہے، بشرطیکہ موضوع (من گھڑت) نہ ہو،  ایسا ہی امام عبد الرحمان بن مہدی اور امام احمد رحمہما اللہ سے منقول ہے، امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ  جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حلال و حرام اور احکام کے سلسلہ میں کچھ نقل کرتے ہیں، تو  ہم سندِ حدیث کی چھان بین میں خوب سختی کرتے ہیں،  اور راویوں پر خوب جرح و نقد کرتے ہیں،  اور جب ہم فضائلِ اعمال، ثواب و عقاب کے حوالے سے روایت کرتے ہیں تو  اسنادِ حدیث میں نرمی کرتے ہیں، اور راویوں کے بارے میں تسامح سے کام لیتے ہیں۔

امام نووی رحمہ اللہ نے فضائل اعمال کے حوالے سے ضعیف حدیث پر عمل کے جواز پر محدثین و دیگر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔

 النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي میں ہے:

"أن الضعيف لايحتج به في العقائد والأحكام،  ويجوز روايته و العمل به في غير ذلك، كالقصص وفضائل الأعمال، والترغيب والترهيب، ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل،  وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال : " إذا روينا عن النبي صلى الله عليه و سلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد، وانتقدنا في الرجال، وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد، وتسامحنا في الرجال.

( النوع الثاني و العشرون المقلوب،٢ / ٣٠٨، ط: أضواء السلف - الرياض)

فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي للسخاوي میں ہے:

 قد حكى النووي في عدة من تصانيفه إجماع أهل الحديث وغيرهم على العمل به في الفضائل ونحوها خاصةً.

(  اقسام الحديث،  تنبيهات،١ / ٣٥١، ط: دار الكتاب العربي - بيروت)

الدر المنضود في الصلاة والسلام على صاحب المقام المحمود لابن حجر الهيتمي میں ہے:

وقيل: هو: (اللهم؛ يا رب محمد وآل محمد؛ صلّ على محمد، وآل محمد، واجز محمدًا صلى الله عليه وسلم ما هو أهله).

( ١ / ١٠٣، ط: دار المنهاج - جدة)

القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ للسخاويمیں ہے:

ونقل المجد الغوي عن بعضهم لو حلف إنسان أن يصلي أفضل الصلاة على النبي - صلى الله عليه وسلم - يقول اللهم صل على سيدنا محمد النبي الأمي وعلى كل نبي وملك وولي عدد الشفع والوتر وعدد كلمات ربنا التامات والمباركات، وعن بعضهم بل يقول اللهم صل على محمد عبدك ونبيك ورسولك النبي الأمي وعلى آله وأزواجه وذريته وسلم عدد خلقك ورضي نفيك وزنة عرشك ومداد كلماتك.

قلت: ومال إليها شيخنا فيما بلغني عنه حيث قال هي أبلغ وإن كان قد رجح كيفية غيرها كما سيأتي قريباً، قال المجد وأختار بعضهم من الكيفيات اللهم صل على محمد وعلى آل محمد صلاة دائمة بدوامك وبعضهم اللهم يارب محمد وآل محمد صل على محمد وآل محمد وأجز محمداً صلى الله عليه وسلم ما هو أهله إلى غير ذلك من الألفاظ التي فيها دليل على أن الأمر فيه سعة من الزيادة والنقص وأنها ليست مختصة بالفاظ مخصوصة وزمان مخصوص لكن الأفضل، الأكمل ما علمناه  صلى الله عليه وسلم  كما قدمناه انتهى.

( الباب الأول، بيان أفضل الكيفيات في الصلاة عليه، ص:٦٧، ط: دار الريان للتراث)

الحاوي للفتاوي للسيوطيمیں ہے:

فَائِدَةٌ: قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنَّهُ قَالَ: " «مَنْ أَصْبَحَ وَأَمْسَى قَالَ: اللَّهُمَّ يَا رَبَّ مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَاجْزِ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هُوَ أَهْلُهُ أَتْعَبَ سَبْعِينَ كَاتِبًا أَلْفَ صَبَاحٍ وَلَمْ يَبْقَ لِنَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ أَدَّاهُ وَغُفِرَ لِوَالِدَيْهِ وَحُشِرَ مَعَ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ» .

( كِتَابُ الْأَدَبِ وَالرَّقَائِقِ، آخِرُ الْعَجَاجَةِ الزَّرْنَبِيَّةِ فِي السُّلَالَةِ الزَّيْنَبِيَّةِ، ٢ / ٥٠، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں