بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک دو تین کے الفاظ سے طلاق دینا


سوال

میاں بیوی کے درمیان لڑائی ہوئی  اور بیوی نے کہا کہ مجھے طلاق دو شوہر نے مارتے ہوے کہا ایک دو تین کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوئی اور ان کے درمیان کوئی گواہ بھی نہیں ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہر کا اپنی بیوی سے صرف یہ کہنا کہ ’’ایک، دو، تین‘‘تو مذکورہ جملہ سے  بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،شوہر کا  اپنی بیوی کے ساتھ نکاح برقرار ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’(قوله: و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به) أي متى قرن الطلاق بالعدد كان الوقوع بالعدد بدليل ما أجمعوا عليه من أنه لو قال لغير المدخول بها: أنت طالق ثلاثًا طلقت ثلاثًا، و لو كان الوقوع بطالق لبانت لا إلى عدة فلغا العدد، و من أنه لو قال: أنت طالق واحدة إن شاء الله لم يقع شيء و لو كان الوقوع بطالق لكان العدد فاصلًا فوقع.‘‘

(ردالمحتار علی الدر المختار ، باب طلاق غیر المدخول بھا ، ج:۳، ص:۲۸۷، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

’’(قوله: و ركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالةً على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، و أراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله: أنت طالق هكذا كما سيأتي.وبه ظهر أن من ‌تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100246

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں