بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک، دو، تین، طلاق، سے طلاق کا حکم


سوال

دو مختلف برادریوں نے آپس میں وٹاسٹا کرلیا، ایک قوم کی آپس میں بنی نہیں، انہوں نے لڑکی کو طلاق دے دی،  دوسری قوم کی آپس میں بنی ہوئی تھی، وہ طلاق نہیں دے رہے تھے، جنھوں نے طلاق دی تھی انہوں نے کہا ہماری بیٹی کو طلاق دو، اس بات کا فیصلہ رکھا گیا، وہ بارہ لاکھ دینے کو تیار تھے، لیکن دوسری قوم بیس لاکھ پر بضد تھی وہ نہ  مانی، لڑکے نے کہا مجھے طلاق دینی نہیں آتی، تو لڑکی کے والد نے کہا :"ایک، دو، تین، میں نے تیری بیٹی کو طلاق دی" ،لڑکے نے یہی جملہ ایک دفعہ نقل کیا ،اب کتنی طلاق ہوئیں  ؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص نے لڑکی کے والد کے کہنے پر یہ جملہ کہا ہے کہ   :"ایک، دو، تین، میں نے تیری بیٹی کو  طلاق دی "تو اس سےاس کی  بیوی پر  ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی ہے،اگر اس سے قبل کوئی طلاق نہیں دی  تو  دورانِ عدت( اگر حمل نہ ہو تو تین ماہ واریاں  اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) بیوی سے رجوع کا حق حاصل ہے، اگر شوہر عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلیتا ہے تو نکاح برقرار رہے گا، دوبارہ نئے سرے سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن اگر شوہر عدت گزرنے سے پہلے رجوع نہیں کرتا  تولڑکی پر طلاقِ بائن واقع ہو جاۓ گی،  نکاح ٹوٹ جائے گا،  مطلقہ  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی ۔

نیز مذکورہ شخص   عدت  کےبعد بیوی کی رضا مندی سےنئے مہر کے ساتھ   شرعی  گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرسکتاہے، البتہ آئندہ کے لیےاسےصرف دو طلاقوں کا اختیار ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"(و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به) نفسه عند ذكر العدد، و عند عدمه الوقوع بالصيغة"

"(قوله: و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به) أي متي قرن الطلاق بالعدد كان الوقوع بالعدد بدليل ما أجمعوا عليه من أنه قال لغير المدخول بها: أنت طالق ثلاثاً طلقت ثلاثاً، و لو كان الوقوع بطالق لبانت لا إلى عدة فلغا العدد ... الخ."

(کتاب الطلاق ، مطلب الطلاق يقع بعدد قرن به لا به،ج:3، ص: 287، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

(الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الطلاق،ج:3، ص:397، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں