بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ايک دن كی چھٹی پر ڈيڑھ دن كی تنخواه كی كٹوتی كرنے كا حكم


سوال

میں ایک پرائیویٹ کمپنی کا ملازم ہوں، کمپنی کا نام rich international ہے، ہماری کمپنی کا جو مالک ہے، اس نے گذشتہ مہینے سے ایک اصول بنایا ہے، پہلے تو یہ اصول تھا کہ اگر ایک چھٹی ہوگی تو ایک چھٹی کے حساب سے پیسے کٹ جاتے تھے، اب گذشتہ مہینے سےیہ اصول بنایا ہے کہ ایک چھٹی پر ڈیڑھ چھٹی کے پیسے کاٹ رہے ہیں، اور یہ اصول ہمیں بتائے بغیر بنایا ہے، ہم نے ان سے کہا ہے کہ اگر آپ نے یہ اصول بنایا تھا تو پہلے ہمیں مطلع کردیتے ہمیں بتائے بغیر آپ نے یہ اصول اپنی طرف سے بنایا ہے تو کیا میرے مالک کا ایسا کرنا درست ہے؟

اور اتوار کی چھٹی بھی ہمارے کھاتے میں ڈالتے ہیں، یعنی ہمیں چھبیس دنوں کے حساب سے پیسے ملتے ہیں، اور یہ بھی کیا تھا کہ ایک ایگریمنٹ ہوتا کہ دس سال کام کرو تو دس لاکھ ملیں گے تو یہ سارا ہم سے دھوکہ کررہے ہیں، اور جو وعدہ بھی کرتے ہیں اس سے مکر جاتے ہیں، تو کیا ان کا ایسا کرنا درست ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیرِ خاص کی ہوتی ہے، کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تن خواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا یا تاخیر سے آیا  تو اس   غیر حاضری اور تاخیر کے بقدر تن خواہ  کا وہ مستحق نہیں ہوتا،   اس معاملہ کا  اصل تقاضا تو یہ ہے کہ جب ملازم  کام نہ کرے تو اس کا معاوضہ بھی نہ لے، یا جتنی تاخیر سے آئے اس تاخیر کے بقدر تن خواہ وصول نہ کرے ، لیکن  شریعت نے طرفین کو اختیار دیا ہے کہ  تن خواہ کے بارے میں باہمی رضامندی سے چھٹی یا تاخیر  کی صورت میں ایک  جائز ضابطہ بناکر آپس میں طے کرلیں  تو اس کی شرعاً  اجازت ہوگی۔

لہذا اگر ادارے کا یہ ضابطہ ہے کہ ملازم کی غیر حاضری پر اس دن کی تن خواہ کاٹی جائے گی تو  اس کا یہ ضابطہ تو جائز ہے، مگر ملازمین کو اطلاع دئیے بغیر اور ان کی رضامندی کے بغیر یہ ضابطہ بنانا کہ ایک دن کی چھٹی پر ڈیڑھ دن کی تن خواہ کی کٹوتی کی جائے گی، تو یہ ملازم کی حق تلفی ہے، ایسا کرنا شرعا ناجائز ہے۔ نیز اگر ادارے نے ضابطہ بنایا ہو  کہ  ملازم جتنے دن کام کرے گا تو اتنے دن کی تن خواہ ملے گی، اور ملازم کو رکھتے وقت اس کو یہ بات بتادی تھی تو اتوار کے دن کی اجرت نہ دینا درست ہوگا، ورنہ عمومی عرف یہی ہے کہ سرکاری چھٹیوں کے ایام کی تن خواہ نہیں کاٹی جائے، اسی طرح کمپنی اپنے ملازمین سے جو وعدہ کرے اسے پورا کرے ، اگر کسی وجہ سے پالیسی تبدیل کرنی ہے تو جانبین کی رعایت رکھ کر ضابطے طے کیے جائیں تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"وعن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحاً حرم حلالاً أو أحل حراماً، والمسلمون على شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حراماً» . رواه الترمذي وابن ماجه وأبو داود وانتهت روايته عند قوله: «شروطهم»."

(باب الافلاس والانظار، الفصل الثانی،1/ 253، ط: قدیمی)

وفيه ايضا:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «آية المنافق ثلاث» . زاد مسلم: «وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم» . ثم اتفقا: «إذا حدث كذب وإذا ‌وعد أخلف وإذا اؤتمن خان»."

(کتاب الإیمان، الفصل الأول، 1/ 23، رقم الحدیث: 55، ط:المکتب الاسلامی بیروت)

     فتاوی شامی میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل۔۔۔

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(کتاب الاجارۃ، 6/ 70، ط: سعید)

شرح المجلۃ میں ہے:

 "لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(1/ 264، مادۃ: 97، ط: رشیدیة)

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

(فصل فی التعزیر، 5/ 41، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100155

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں