بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک چیز پر دوسرے کا اسٹیکر لگا کر فروخت کرنے کا حکم


سوال

ہم لوگ سولر شمسی کا کاروبار کرتے ہیں، جس میں بعض دوکاندار آج کل بغیر نام کے سولر شمسی پر ایک نمبر مال (اے گریڈ) کا اسٹیکر لگا دیتے ہیں یا اس بغیر نام والے مال پر ایک نمبر مال کا ڈبہ لگا دیتے ہیں جسے بعد میں اسی اسٹیکر یا ڈبہ کی وجہ سے تقریبا 5000 ہزار یا اس سے بھی زیادہ منافع کے ساتھ فروخت کردیتے ہیں، مثلاً اگر وہی بغیر نام والا فروخت کرنا چاہے تو وہ 35000 کا فروخت ہوتا ہے اور اسی بغیر نام والے مال پر جب ایک نمبر والا یعنی اے گریڈ مال کا اسٹیکر یا ڈبہ لگا دیتے ہیں تو پھر 40000 ہزار یا اس سے بھی مہنگا فروخت ہوسکتا ہے، تو مذکورہ بالا صورت میں اسی طرح مال فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور کسی نے اسی طرح مال فروخت کرلیا ہو تو اس سے حاصل شدہ منافع کا کیا حکم ہے؟ اس کے علاوہ لوگ اس طرح بھی کرتے ہیں کہ مثلا 400 واٹ کی سولر شمسی پر 450 یا 500 شمسی کا اسٹیکر لگا دیتے ہیں تو اس طرح بیع کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور اس سے حاصل شدہ منافع کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں 35000 کی چیز پر 40000  والے مال کا اسٹیکر اور 400 واٹ کے سولر پر 450یا 500 واٹ سولر شمسی کا اسٹیکر لگا کرفروخت کرنا دھوکہ دہی  کی وجہ سے ناجائزو حرام ہےاور حدیث  میں اس پر سخت وعید آئی ہے، نیز اس دھوکے سے حاصل ہونے والا منافع بھی حرام ہو گا، لہذا اس سے مکمل اجتناب کر نا ضروری ہےاور جتنا حرام کامنافع ہے اگر مالک کو واپس کر سکتا ہے تو واپس کرےاور اگر واپس کرنا ممکن نہ ہو تو اس کو بغیر نیت کے صدقہ کرنا لازم ہے۔

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد اللہ بن مسعود قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من غشنا فلیس منا والمکر والخداع في النّار."

(کتاب البیوع، باب الغش، ج: 4، ص: 139، ط: دار الفکر، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام."

(كتاب البيوع، ج: 5،ص: 47، ط: سعید)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمکنه الرد إلی المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء … قال: والظاهر إن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولا یرجو به المثوبة."

(معارف السنن، أبواب الطهارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طهور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)

البحر الرائق میں ہے:

"كتمان عيب السلعة حرام وفي البزازية وفي الفتاوى إذا باع سلعة معيبة عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته قال الصدر لا نأخذ به. اهـ. وقيده في الخلاصة بأن يعلم به."

(کتاب البیع، باب خيار العيب، ج: 6، ص:38،  ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں