میری والدہ کے انتقال کو نو ماہ گزر چکے ہیں، اور میرے والد کا بھی ان سے پہلے انتقال ہوگیاتھا، میں ان کی اکلوتی بیٹی ہوں، ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے، مجھے یہ معلوم کرنا ہےکہ میری والدہ نے وراثت میں جو رقم چھوڑی ہے،جو کہ سولہ لاکھ روپے ہے، اس کی تقسیم کن کن افراد میں ہوگی، اور کس تناسب سے ہوگی، والدہ مرحومہ کے ورثاء میں ایک بیٹی، دوبھائی اور چار بہنیں ہیں.
صورت مسئولہ میں سائلہ کی والدہ مرحومہ کےترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحومہ کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر ان کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد ،اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو توباقی ترکہ کے ایک تہائی حصہ میں سے اسے نافذ کرنے کے بعد جو ترکہ باقی رہ جائے، اس کےکل سولہ حصے کر کے مرحومہ کی بیٹی(سائلہ) کو آٹھ حصے، ہر ایک بھائی کو دو،دو حصے،اور ہرایک بہن کوایک،ایک حصہ ملے گا۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت:16/2 : سائلہ کی والدہ مرحومہ
بیٹی | بھائی | بھائی | بہن | بہن | بہن | بہن |
1 | 1 | |||||
8 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 |
یعنی سولہ لاکھ روپے میں سے مرحومہ کی بیٹی (سائلہ) کو آٹھ لاکھ روپے، ہر ایک بھائی کو دو، دو لاکھ روپے اور ہر ایک بہن کو ایک ، ایک لاکھ روپے ملیں گے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100222
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن