بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیوی کا ivf دوسری میں منتقل کرنا


سوال

میرا سوال آئی وی ایف  ٹیسٹ (ٹیوب بے بی) سے متعلق ہے،  میری معلومات کے مطابق فقہ حنفی میں میاں اور بیوی کے درمیان ہی آئی وی ایف  کے عمل کی اجازت ہے ،کوئی بھی تیسرا شخص اس میں شامل نہیں ہوسکتا۔ اب ایک آدمی آتا ہے آئی وی ایف کرانے اس سے اس کا نطفہ اور اس کی بیوی کا انڈا اکھٹے کرلیے جاتے ہیں ۔ آئی وی ایف کیا جاتا ہے ،کچھ دن کے  بعد وہ آدمی یہ کہتا ہے کہ میری اس بیوی کی وفات ہوگئی  ہے اور میں نے دوسری شادی کر لی ہے، اب یہ جو نطفہ اور انڈا پہلی بیوی سے مل کر بنا ہے، اسے میری دوسری بیوی میں منتقل کر دو ، اب آپ کی رہنمائی درکار ہے اس معاملے کے بارے میں، کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اولاد  کا حصول نعمتِ خداوندی  ہے ، لیکن اللہ تعالی کے ہاں طے شدہ مقدر کے مطابق ہے، اس نعمت کے حصول کے لیے مرد کو اللہ تعالیٰ نے چارعورتوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے کی اجازت دی ہے، لہٰذا اگر بیوی میں ولادت سے مانع  مرض ہے تو دوسری شادی کرلی جائے۔  "ٹیسٹ  ٹیوب  بے بی" کے ذریعےاولاد کی پیدائش غیرفطری طریقہ ہے،جس میں کبھی غیر مرد کا مادہ منویہ یا اجنبی عورت کا رحم استعمال کیا جاتاہے اور کبھی شوہرکا مادہ منویہ اوراس کے جرثومےغیر فطری طریقے، مثلاً: جلق وغیرہ کے ذریعے حاصل کرکے  غیر فطری طریقے سے بیوی کے رحم میں ڈالے جاتے ہیں، مردکامادہ منویہ اورعورت کابیضہ ملاکرٹیوب میں کچھ مدت کے لیے رکھ لیے جاتے ہیں ، پھرانجکشن کے ذریعے رحم میں پہنچا دیے جاتے ہیں ، اور اس کے پہنچانے کا عمل (عموماً)  اجنبی مرد یا عورت سرانجام دیتے ہیں جوشرعاً جائزنہیں ہے ،اس لیے اس سے اجتناب لازمی ہے۔ 

البتہ اگر کسی ڈاکٹر سے "ٹیسٹ ٹیوب بے بی" کا طریقہ کار معلوم کرکے شوہر  اپنا مادہ منویہ خود  یا بیوی اپنے شوہر کا مادہ منویہ اپنے  رحم میں خود داخل کرے، اور اس میں کسی تیسرے فرد کا بالکل عمل دخل نہ ہو ، یعنی کسی مرحلے میں بھی شوہر یا بیوی میں سے کسی کا ستر  کسی مرد یا عورت کے سامنے نہ کھلے، نہ ہی  چھوئے، (اور کسی تیسرے کا مادہ منویہ بھی اس میں شامل نہ ہو) تو اس کی گنجائش ہوگی۔ 

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ شخص کی پہلی بیوی سے حاصل شدہ  مادہ کسی اور خاتون میں (چاہے وہ اسی شوہر کی ہی دوسری بیوی ہو) میں منتقل  کرنا جائز نہیں (چاہے یہ کام شوہر خود ہی کیوں نہ کرے)۔ نیز اگر مذکورہ شخص کے ان الفاظ (اسے میری دوسری بیوی میں منتقل کر دو) کا مطلب سائل یا اس کے ادارے کے عملے کے ذریعے منتقل کروانا ہے، تو اس میں دوہری خرابی ہے، یعنی کسی تیسرے شخص کا یہ عمل انجام دینا، جو مستقل ناجائز ہے۔ فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں