بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیوی کا دوسری بیوی کے خلاف باتیں کرنے پر اسے طلاق دینا


سوال

میں نے  دوسری شادی کی ہے اود دونوں بیویوں کو ایک  ساتھ رکھا ہوا تھا،  دونوں اچھے سے ایک ساتھ رہ رہی تھیں، میری پہلی بیوی سے اولاد نہیں تھی، ابھی میری شادی کو 6 ماہ ہوئے  ہیں اور  اب پتا چلا کہ دوسری بیوی   میری پہلی بیوی کے خلاف ملازموں  سے باتیں کرتی تھی کہ جب بچے ہوجائیں گے،  تو میں اس کو نکال دوں  گی اور  اس کے علاوہ بہت  کچھ کہا،  جب میں نے اس سے پوچھا کہ یہ سب کیوں کہا؟ تو کہنے لگی کہ ملازمین نے میرے سے یہ سب کہا، میں نے پوچھا کہ  آپ نے مجھ سے  بات کیوں نہیں کی؟ تو کہنے لگی کہ: میں نہیں چاہتی تھی کہ ان  کی نوکری چلی جائے اور میرے ملازمین 25سال سے ہیں،  اب کیا اس فتنے کی وجہ سے میں طلاق دے دوں،  تو یہ غلط تو نہیں ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ  اللہ تعالی کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے مبغوض ترین چیز طلاق ہے اور بلا وجہ شرعی اپنی بیوی کو طلاق دینا جائز نہیں ہے، اگربیوی کی طرف سے کمی کوتاہی  ہو، تو شوہر کو درگزر کرنا چاہیے، عورتوں سے متعلق  نبی  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ: "عورتوں سے متعلق خیر کی وصیت کو قبول کرو، اس لیے کہ وہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں، اگر تم اس کو سیدھا کرنے جاؤگے، تو وہ ٹوٹ جائے گی،" اور بعض روایات میں اس کی صراحت موجود ہے کہ اس کا ٹوٹنا طلاق ہے۔

لہٰذا سائل کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کی کمی کوتاہیوں کو درگزر کرے اور  اگر بیوی کی طرف سے اس طرح کی کوئی بات پائی گئی ہے، تو  بجائے اسے طلاق دینے کے  پیار محبت کے انداز میں اسے سمجھائے اور ملازمین وغیرہ کی باتوں پر، یا ایک سوکن کے بارے میں دوسری سوکن کی باتوں پر  کان نہ دھرے اور دونوں بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرتے ہوئے زندگی گزارے اور دونوں سوکنوں کے درمیان محبت و الفت کی  دعائیں بھی کرتا رہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

" حدثنا كثير بن عبيد الحمصي قال: حدثنا محمد بن خالد، عن عبيد الله بن الوليد الوصافي، عن محارب بن دثار، عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌أبغض ‌الحلال إلى الله الطلاق»."

(كتاب الطلاق، ج:1، ص:650، ط:دار إحياء الكتب العربية)

عمدۃ القاری میں ہے:

"قوله: (لا تشترط المرأة) وفي حديث الباب: لا يحل لامرأة تسأل طلاق أختها، وقال النووي: معنى هذا الحديث نهى المرأة الأجنبية أن تسأل رجلا طلاق زوجته ليطلقها ويتزوج بها. قوله: (أختها) ، قال النووي: المراد بأختها غيرها سواء كانت أختها من النسب أو الرضاع أو الدين، ويلحق بذلك الكافرة في الحكم وإن لم تكن أختا في الدين إما لأن المراد الغالب أو أنها أختها في الجنس الآدمي. وقال أبو عمر: الأخت هنا الضرة، فقال: الفقه فيه أنه لا ينبغي أن تسأل المرأة زوجها أن يطلق ضرتها لتنفرد ."

(كتاب النكاح، ج:20، ص:142، ط:دار إحياء التراث العربي)

بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا أبو كريب وموساى بن حزام قالا حدثنا حسين بن علي عن زائدة عن ميسرة الأشجعي عن أبي حازم عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌استوصوا ‌بالنساء فإن المرأة خلقت من ضلع وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه فإن ذهبت تقيمه كسرته وإن تركته لم يزل أعوج فاستوصوا بالنساء."

اسی حدیث کے تحت عمدۃ القاری میں ہے:

"(وإن ذهبت تقيمه كسرته) ، قيل: هو ضرب مثل للطلاق، أي: إن أردت منها أن تترك اعوجاجها أفضى الأمر إلى طلاقها، ويؤيده قوله في رواية الأعرج عن أبي هريرة، رضي الله تعالى عنه، عند مسلم: إن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها. وقيل: الحديث لم يذكر فيه النساء إلا بالتمثيل بالضلع والاعوجاج الذي في أخلاقهن منه، لأن للضلع عوجا فلا يتهيأ الانفتاع بهن إلا بالصبر على اعوجاجهن."

(كتاب بدء الخلق، ج:15، ص:212، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100462

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں