ایک گھر میں 5بھائی رہتے تھے ،کام کاج وغیرہ سب کا الگ تھا سب بھائیوں کا البتہ کھانا پینا ایک ساتھ تھا،پھر بعد میں 2بھائی الگ ہوگئے اپنے بیوی بچوں کےساتھ ،اب یہ 2 بھائی جو الگ ہوئے ہیں یہ اپنے 3بھائیوں سے مطالبہ کررہےہیں کہ اپنے جمع کئے ہوئے مال میں سے ہمیں بھی حصہ دیا جائے جبکہ یہ مال انہوں نے اپنےزور بازو سے کمایا اور جمع کیا ،والد صاحب کی جائداد کا کوئی دخل نہیں ،والدصاحب کی میراث ابھی تقسیم نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اس مال سے کوئی منفعت حاصل ہے ،جبکہ ان 3 بھائیوں میں سے ایک غیر شادی شدہ ہے اور ماں بھی ان تین بھائیوں کے ساتھ رہتی ہے ،1۔کیا ان بھائیوں کایہ مطالبہ کرنا کیسا ہے ؟2۔آیا بھائی کے مال میں بھائی کاکوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟
1۔صورت ِمسئولہ میں چونکہ سرمایہ ہر ایک کا اپنا ذاتی ہے لہذا کسی بھائی کا دوسرے بھائی کے مال میں کوئی حق نہیں ،اور مذکورہ بھائیوں کامطالبہ کرنا جائز نہیں ۔
2۔کسی بھائی کادوسرے بھائی کے مال میں اس کے زندگی میں کوئی حق نہیں ہوتا ،البتہ اس کے انتقال کے بعداگر اس بھائی کے ورثاء میں دوسرے بھائی بھی آتے ہوں تو بطور وارث حصہ دار بنيں گے ورنہ نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"إعلم أن أسباب الملك ثلاثة :ناقل كبيع وهبة خلافة كإرث وأصالة،وهو الاستلاء حقيقة ّ بوضع اليد أو حكماّبالتهيئة كنصب شبكةالصيد لا لجفاف على المباح الحالي عن مالك ،فلو استلوى في مفازة على حطب غيره لم يمكله ولم يحل للمقلش مايجده بلاتعريف وتمام التفريع في المطولات."
(کتاب الصید،ج:6،ص:463،ط:سعید)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"(ثم) الشركة نوعان: شركة الملك وشركة العقد. (فشركة الملك) أن يشترك رجلان في ملك مال، وذلك نوعان: ثابت بغير فعلهما كالميراث، وثابت بفعلهما، وذلك بقبول الشراء، أو الصدقة أو الوصية. والحكم واحد، وهو أن ما يتولد من الزيادة يكون مشتركا بينهما بقدر الملك، وكل واحد منهما بمنزلة الأجنبي في التصرف في نصيب صاحبه."
(كتاب الشركة،ج:11،ص:151،ط:دار المعرفة - بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308102223
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن