ہمارے والد کا انتقال ہوچکا ہے، اور ہماری والدہ حیات ہیں، اس کے علاوہ ہم (مجھ سمیت) چار بھائی اور ایک بہن ہیں۔ ہمارا ایک گھر ہے جو کہ میں نے اور مجھ سے چھوٹے بھائی نے پیسے ملا کر خریدا اور بنایا تھا، جس میں میرے والد یا کسی اور بھائی کے پیسے شامل نہیں تھے، گھر ہم نے اپنی والدہ کے نام کروایا تھا۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ شرعی لحاظ سے کس کو کتنا حصہ ملے گا؟
صورتِ مسئولہ میں مرحوم والد کے حقوقِ متقدمہ ادا کرنے کے بعد ما بقیہ کل ترکہ(مرحوم کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد) کو 72 حصوں میں تقسیم کرکے 9 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14 حصے ہر ایک بیٹے کو اور 7 حصے بیٹی کو ملیں گے۔
یعنی 100 روپے میں سے (12.50) روپے بیوہ کو، (19.44) روپے ہر ایک بیٹے کو اور (9.72) روپے بیٹی کو ملیں گے۔
اور جو گھر سائل اور اس کے چھوٹے بھائی نے پیسے ملا کر خریدا اور بنایا تھا وہ ان ہی دونوں کی ملکیت ہے، سائل کے والد، دیگر بھائیوں اور بہن کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ صرف نام کروانے سے وہ گھر والدہ کی ملکیت نہیں ہوا۔
البتہ اگر سائل اور اس کے چھوٹے بھائی نے وہ گھر اپنی والدہ کو گفٹ کرکے مالکانہ حقوق کے ساتھ ان کے قبضہ میں بھی دے دیا تھا تو وہ گھر والدہ کی ملکیت شمار ہوگا، اور والدہ کی حیات میں اس گھر میں اولاد کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:5، ص:689، ط: دار الفكر):
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة."
و فيه أيضاّ (ج:5، ص:690، 691):
"(و تتم) الهبة (بالقبض) الكامل (و لو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) و الأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها، و إن شاغلا لا، فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه، أو دابة عليها سرجه و سلمها كذلك لا تصح و بعكسه تصح في الطعام و المتاع و السرج فقط لأن كلا منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به لأن شغله بغير ملك واهبه لا يمنع تمامها كرهن و صدقة لأن القبض شرط تمامها و تمامه في العمادية."
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144202200507
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن