بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیوہ اور ایک بیٹی کے درمیان ترکہ کی تقسیم (مسئلہ رد)


سوال

 میت نے وارثین میں صرف ایک بیٹی اور بیوہ کو چھوڑا ہے،سوال یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے میت کے مال میں سے کس کو کتنا حصہ ملے گا؟ سہل ترین انداز میں تشفی بخش جواب دے کر ممنون و مشکور ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر میت کے ورثا میں صرف ایک بیوہ اور ایک بیٹی ہے اور اس کے علاوہ مرحوم کے بیٹے، پوتے، والد، دادا، بھائی، بھتیجے، ، چچا، چچا زاد بھائی وغیرہ  میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے تو اس صورت میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد میں سے مرحوم کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو ۸ حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے  ایک  حصہ مرحوم کی بیوہ کو اور باقی ۷ حصے مرحوم کی اکلوتی بیٹی کو ملیں گے۔

فیصد کے اعتبار سے %100 میں سے %12.5 مرحوم کی بیوہ کو اور %87.5 مرحوم کی اکلوتی بیٹی کو ملے گا۔

الفتاوى الهندية (6/ 469) :

’’ وإن كان في المسألة من لا يرد عليه وهو الزوج والزوجة فإن كان جنسا واحدا فأعط فرض من لا يرد عليه من أقل مخارجه ثم اقسم الباقي على عدد من يرد عليه إن استقام كزوج وثلاث بنات أعط الزوج فرضه الربع من أربعة والباقي للبنات، وهو ثلاثة تصح عليهن ‘‘۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں