بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیٹی اور ایک بہن کے درمیان میراث کی تقسیم


سوال

 باپ کی ایک بیٹی ہو اور بیٹے نہ ہوں، بھائی بھی انتقال کر گیا ہو، اور ایک بہن زندہ ہو اور دوسری انتقال کر گئی ہو، تو اس صورت میں باپ کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد کس کو ملے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کے انتقال کے وقت اُس کے ورثاء میں صرف ایک بیٹی اور ایک بہن حیات ہو، اور اس کے والدین، بیوی، بھائی، اوردوسری  بہن کا انتقال اس شخص کے انتقال سے پہلے ہوگیا ہو، تو ایسی صورت میں مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اور مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہوتو اس کو ادا کرنے کے بعد، اور مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل مال کو 2 حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ  مرحوم کی بیٹی  کو، اور ایک حصہ مرحوم کی زندہ بہن کو ملے گا۔ 

البتہ اگر مذکورہ شخص کے انتقال کے وقت اس کے والدین، بیوی، یا بھائی بہن  میں سے کوئی زندہ ہو اور اس کا انتقال  مذکورہ شخص کے انتقال کے بعد ہوا ہو تو شرعاً وہ بھی مذکورہ شخص کا وارث ہوگا اور اس کے ورثاء میں اس کا حصہ تقسیم کیا جائے گا، جس کی تفصیل مذکورہ شخص کے مکمل ورثاء بتا کر معلوم کی جاسکتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ثم شرع في العصبة مع غيره فقال (ومع غيره الأخوات مع البنات) أو بنات الابن لقول الفرضيين اجعلوا الأخوات مع البنات عصبة والمراد من الجمعين هنا الجنس.

وفی الرد:(قوله: لقول الفرضيين إلخ) جعله في السراجية وغيرها حديثا قال في سكب الأنهر: ولم أقف على من خرجه، لكن أصله ثابت بخبر ابن مسعود - رضي الله عنه - وهو ما رواه البخاري وغيره في بنت وبنت ابن وأخت للبنت النصف، ولبنت الابن السدس، وما بقي فللأخت وجعله ابن الهائم في فصوله من قول الفرضيين وتبعه شراحها كالقاضي زكريا وسبط المارديني وغيرهما اهـ".

(‌‌كتاب الفرائض،فصل في العصبات، ٦/ ٧٧٦، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں