متوفیہ کی ایک بیٹی ،چھ بھائی اور پانچ بہنیں ہیں، ترکہ کس حصہ میں تقسیم ہو گا؟ ترکہ کی رقم 396552روپے ہے۔
سوال میں یہ واضح نہیں ہے کہ مرحومہ کے انتقال کے وقت ان کے والدین اور شوہر میں سے کوئی حیات تھا یا نہیں؟ لہٰذا اگر متوفیہ کے انتقال کے وقت اس کے والدین اور شوہر میں سے کوئی زندہ نہیں تھا ، اور صرف سوال میں مذکورہ ورثا ہی موجود تھے، تو مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ترکہ سے متوفیہ کے حقوقِ متقدمہ ادا کرنے کے بعد (یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ ادا کرنے کے بعد اگر مرحومہ کے ذمہ کسی کا قرضہ ہو تواسے ادا کرنے کے بعد، اور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو ترکہ کے ایک تہائی سے اسے نافذ کرنے کے بعد) باقی ماندہ ترکہ کے 34 حصے کر کے 17 حصے مرحومہ کی بیٹی کو ، 2 حصے چھ بھائیوں میں سے ہر ایک کو اور 1 حصہ پانچوں بہنوں میں سے ہر ایک کو ملے گا۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت:2/ 34
بیٹی | بھائی | بھائی | بھائی | بھائی | بھائی | بھائی | بہن | بہن | بہن | بہن | بہن |
1 | 1 | ||||||||||
17 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 |
یعنی 396,552 روپے میں سے 198,276 روپے مرحومہ کی بیٹی کو، 23,326.588 روپے چھ بھائیوں میں سے ہر ایک کو اور 11,663.294 روپے پانچوں بہنوں میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔
"الفتاوي الهندية"میں ہے:
"وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت."
(كتاب الفرائض، الباب الثاني في ذوي الفروض ، ج:6، ص:448، ط:دار الفكر)
وفیہ ایضا:
"إذا اجتمعت العصبات بعضها عصبة بنفسها وبعضها عصبة بغيرها وبعضها عصبة مع غيرها فالترجيح منها بالقرب إلى الميت لا بكونها عصبة بنفسها، حتى أن العصبة مع غيرها إذا كانت أقرب إلى الميت من العصبة بنفسها كانت العصبة مع غيرها أولى."
(كتاب الفرائض، الباب الثالث في العصبات، ج:6، ص:452، ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407101023
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن