بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بہن نکاح میں ہونے کے باوجود دوسری بہن سے نکاح کرنے کا حکم


سوال

کیا ایک بہن  نکاح میں ہونے کے باوجود اس کی دوسرے بہن کے ساتھ نکاح کیا جاسکتا ہے؟ شریعت کا کیا حکم ہے اس بارے میں؟

جواب

کسی بھی مسلمان کے لیے بیک وقت دو حقیقی بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا ہرگز جائز نہیں، ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بہن سے نکاح کرنا قطعاً حرام ہے، اور  ایسا نکاح شرعاً منعقد بھی  نہیں ہوتا، قرآن مجید میں ہے:

﴿ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ﴾ [النساء : 24]

"ترجمہ: اور یہ کہ (حرام ہے تم پر کہ) تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو، لیکن جو  (قرآن  کا حکم آنے سے) پہلے ہوچکا۔"

اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی صراحۃً اس کی ممانعت موجود ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 277):

’’(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لايجمع بين أختين بنكاح ولا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج. والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكراً؛ لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما، هكذا في المحيط. فلا يجوز الجمع بين امرأة وعمتها نسباً أو رضاعاً، وخالتها كذلك ونحوها."

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ، ”احکام اسلام عقل کی نظر میں“  کتاب میں اس کی حکمت تحریر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

” اسی طرح دو بہنوں کا جمع کرنا حرام ہے؛ کیوں کہ اس میں سوکن پنے کا حسد منجر بالعداوت (دشمنی کا سبب) ہوگا، جس سے قطع رحم ہوگا  اور یہ امر خدا تعالیٰ کو منظور نہیں ہے کہ اہلِ قرابت میں قطع رحم ہو، اور علی ہذا القیاس اس قسم کی قرابت داری، قریبی عورتوں کا آپس میں ایک شخص کے نکاح میں ہونا حرام ہوا۔ چناں چہ آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں:  « لایجمع بین المرأة وعمتها ولا بین المرأة وخالتها»". (2/159)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں