بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جب قبر میں مردے کا دایاں کندھا قبلہ کی طرف ہوتا ہے تو طواف میں بایاں کندھا کیوں قبلے کی طرف کیا جاتا ہے؟


سوال

انسان کے مرنے کے بعد دفناتے وقت اس کا دایاں کندھا خانہ  کعبہ کی طرف ہوتا ہے، لیکن عمرہ کرتے وقت اس کا بایاں کندھا  خانہ کعبہ کی طرف ہوتا ہے، ایسا فرق کیوں ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت کے احکامات اگرچہ حکمت سے خالی نہیں، لیکن وہ سماعی  ہیں، ان کو انسان کی ناقص عقل کی کسوٹی پر پرکھنا درست نہیں، بلکہ ان کی اصل علت اور سبب نبی کریم ﷺ کی اطاعت ہے، یعنی جس طرح نبی کریم ﷺ سے منقول ہے، اسی  طرح مسلمان اُن کو کرنے کے مکلف ہیں، بلاوجہ اس کی علتیں اور فرق تلاش کرنا درست نہیں۔ نیز مردے کو دفنانے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ مردے کو قبر میں دیوار کے سہارے دائیں کروٹ پر لٹایا جائے اور رخ قبلہ کی طرف کیا جائے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کا یہ کہنا کہ "انسان کے مرنے کے بعد دفناتے وقت اس کا دایاں کندھا خانہ  کعبہ کی طرف ہوتا ہے"، درست نہیں؛ کیوں کہ سنت طریقے کے مطابق تدفین کرنے کی صورت میں مردے کا کندھا زمین کی طرف ہوتا ہے، قبلے کی طرف نہیں۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہر نیک کام میں تیامن (یعنی دائیں طرف سے کرنے) کو پسند فرمایا ہے، لہٰذا مردے کو بھی دائیں کروٹ پر لٹاکر قبلہ رُخ کیا جاتا ہے، ورنہ بائیں کروٹ پر لٹاکر بھی قبلہ رُخ کیا جاسکتا ہے، لیکن خلافِ سنت ہے۔

اسی طرح بیت اللہ کے طواف میں خانہ کعبہ کی طرف رُخ کرکے طواف کرنے میں چوں کہ حرج لازم آتا ہے، اس لیے طواف کی ابتداء اور انتہاء میں تو قبلہ رُخ ہونے کا حکم ہے، مگر طواف کے دوران نہیں، البتہ پھر چلتے ہوئے اب دو صورتیں تھیں، یا تو دائیں طرف سے شروع کیا جاتا یا بائیں طرف سے، تو طواف چوں کہ عبادت ہے اور نیک کام ہے، اور نیکی کے کاموں میں دائیں طرف سے شروع کرنا پسندیدہ ہے، لہٰذا ابتداء میں بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کے بعد اُسی قاعدے کے بموجب کہ ہر نیک کام میں تیامن پسندیدہ ہے، طواف کو  دائیں طرف سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا، نیز اس کی ایک اور حکمت فقہاء کرام یہ بھی ذکر فرماتے ہیں کہ طواف کرنے والا بیت اللہ کے ساتھ ایسا ہے جیسے امام کے ساتھ ایک تنہاء اقتداء کرنے والا، اور یہ بات معلوم ہے کہ جب امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو، تو وہ امام کے دائیں طرف کھڑا ہوتا ہے اور امام اُس کےبائیں طرف ہوتا ہے، اسی طرح طواف کرنے والے کو بھی حکم ہوا کہ وہ بیت اللہ کے دائیں طرف رہے اور بیت اللہ کو اپنے بائیں طرف رکھے۔

بہرحال یہ دونوں اعمال (بیت اللہ کا طواف اور مردے کی تدفین) امرِ تعبدی کے قبیل سے ہیں، اور ان میں اصل علت نبی کریم ﷺ کی اطاعت ہے، نیز ان دونوں اعمال میں کوئی مناسبت یا تضاد بھی نہیں ہے کہ جس کی بناء پر ان کے درمیان کسی  فرق کا سوال کیا جائے۔

قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ"

[النور: ٥٦]

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا إسحاق بن إبراهيم وعلي بن خشرم. جميعا عن عيسى بن يونس. قال ابن خشرم: أخبرنا عيسى عن ابن جريج. أخبرني أبو الزبير؛ أنه سمع جابرا يقول: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يرمي على راحلته يوم النحر، ويقول: "لِتَأْخُذُوا ‌مَنَاسِكَكُمْ. فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لا أحج بعد حجتي هذه"."

(كتاب الحج، باب استحباب رمي جمرة العقبة يوم النحر راكبا. وبيان قوله صلى الله تعالى عليه وسلم "لتأخذوا ‌مناسككم"، ٢/ ٩٤٣، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"ويوضع في القبر على جنبه الأيمن مستقبل القبلة، كذا في الخلاصة."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مكان إلى آخر، ١/ ١٦٦، ط: دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وأخذ) الطائف (عن يمينه مما يلي الباب) فتصير الكعبة عن يساره، لأن الطائف كالمؤتم بها والواحد يقف عن يمين الإمام، ولو عكس أعاد مادام بمكة فلو رجع فعليه دم."

(كتاب الحج، فصل في الإحرام وصفة المفرد بالحج، ٢/ ٤٩٤، ط: سعيد)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبيّ صلى الله عليه وسلم «يعجبه التيمن في تنعله وترجله وطهوره، وفي شأنه كله»."

(كتاب الوضوء، باب التيمن في الوضوء والغسل،١/ ٤٥، رقم الحديث:١٦٨، ط: دار طوق النجاة)

فتح الباری میں ہے:

"قوله: كان يعجبه التيمن. قيل: لأنه كان يحب الفأل الحسن؛ إذ أصحاب اليمين أهل الجنة. وزاد المصنف في الصلاة عن سليمان بن حرب عن شعبة: ما استطاع. فنبه على المحافظة على ذلك ما لم يمنع مانع. قوله: في تنعله، أي لبس نعله، وترجله، أي ترجيل شعره، وهو تسريحه ودهنه. قال في المشارق: رجل شعره إذا مشطه بماء أو دهن ليلين، ويرسل الثائر، ويمد المنقبض. زاد أبو داود عن مسلم بن إبراهيم عن شعبة: وسواكه. قوله: في شأنه كله. كذا للأكثر من الرواة بغير واو،  وفي رواية أبي الوقت بإثبات الواو، وهي التي اعتمدها صاحب العمدة. قال الشيخ تقي الدين: هو عام مخصوص؛ لأن دخول الخلاء والخروج من المسجد ونحوهما يبدأ فيهما باليسار. انتهى. وتأكيد الشأن بقوله: كله يدل على التعميم؛ لأن التأكيد يرفع المجاز، فيمكن أن يقال حقيقة الشأن ما كان فعلا مقصودا، وما يستحب فيه التياسر ليس من الأفعال المقصودة، بل هي إما تروك، وإما غير مقصودة، وهذا كله على تقدير إثبات الواو، وأما على إسقاطها فقوله: في شأنه كله متعلق بيعجبه لا بالتيمن، أي يعجبه في شأنه كله التيمن في تنعله إلخ أي لا يترك ذلك سفرا، ولا حضرا، ولا في فراغه، ولا شغله، ونحو ذلك. وقال الطيبي: قوله: في شأنه بدل من قوله: في تنعله بإعادة العامل قال: وكأنه ذكر التنعل؛ لتعلقه بالرجل، والترجل: لتعلقه بالرأس، والطهور؛ لكونه مفتاح أبواب العبادة، فكأنه نبه على جميع الأعضاء، فيكون كبدل الكل من الكل. قلت: ووقع في رواية مسلم بتقديم قوله: في شأنه كله على قوله: في تنعله إلخ، وعليها شرح الطيبي".

(كتاب الوضوء، باب التيمن،١/ ٢٦٩، ط: دار المعرفة)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"هذه قاعدة مستمرة فى الشرع، وهى انما كان من باب التكريم والتشريف، كلبس الثوب والسراويل والخف ودخول المسجد والسواك والاكتحال وتقليم الأظفار وقص الشارب وترجيل الشعر -وهو مشطه- ونتف الإبط وحلق الرأس والسلام من الصلاة وغسل أعضاء الطهارة والخروج من الخلاء والأكل والشرب والمصافحة واستلام الحجر الأسود، وغير ذلك مما هو في معناه يستحب التيامن فيه، وأما ما كان بضده كدخول الخلاء والخروج من المسجد والامتخاط والاستنجاء وخلع الثوب والسراويل والخف وما أشبه ذلك فيستحب التياسر فيه، وذلك كله بكرامة اليمين وشرفها والله أعلم".

(كتاب الطهارة، باب الاستطابة، ٣/ ١٦٠، ط:دار إحياء التراث العربي)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں