بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بچے کے دو نام رکھنا


سوال

ایک بچے کے دو نام رکھ سکتے ہیں کیا؟

جواب

ایک بچے کے دو نام رکھنے کی کسی صریح نص میں تو ممانعت نہیں ہے، البتہ امت کا تعامل شروع سے یہ رہا ہے کہ ایک انسان کا ایک ہی نام رکھا جائے، ہاں! ایسے دو ناموں کو مرکب کرکے ایک نام بنایا جاسکتاہے جن کی ترکیب سے معنوی خرابی لازم نہ آئے، نیز کسی بچے کے دو نام رکھنے سے قانونی دستاویزات میں بھی مشکلات پیش آئیں گی، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ہی نام منتخب کرنا پڑے گا، لہٰذا تعاملِ امت اور عرف کی بنا پر بچے کا ایک ہی نام رکھنا چاہیے۔

تاہم اگر نام تو ایک مقرر کیا جائے اور عرفًا و قانونًا وہی نام سمجھا جائے، البتہ قریبی لوگ کسی دوسرے نام سے پکاریں اور اس نام سے وہی شخص معہود ہو اور وہ اس نام سے پکارنے سے خود کو پکارنا سمجھتا ہو، اور اسے برا نہ لگے تو اس کی اجازت ہوگی۔ لیکن نکاح اور دیگر شرعی اور قانونی مسائل میں اس کا وہی نام معتبر ہوگا جو دستاویزات میں اس کا نام تجویز کردیا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200490

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں