بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک عورت کے رضاعت کے دعویٰ سے حرمت رضاعت کے ثبوت کا حکم


سوال

دوبہنیں ہیں ،ایک کانام زینب ہے اور دوسری کانام کلثوم ہے (اب  ان دونوں کی شادیاں ہوچکی ہیں)زینب کاایک بیٹاہے ،جس کا نام زید ہے اور کلثوم کی ایک بیٹی ہے ،جس کانام رقیہ ہے ، زید کی منگنی رقیہ سے ہوچکی ہے ،لیکن اب زینب کہتی ہے کہ میرے بیٹے زید نے میری والدہ (یعنی زید نے اپنی نانی)کادودھ پیاہے اور زینب کہتی ہے کہ میرے پاس دو گواہ ہیں اوروہ دونوں عورتیں ہیں ، جب ان دونوں گواہ عورتوں سے اس کے متعلق پوچھاگیاتو انہوں نے کہاکہ ہم کو کچھ معلوم نہیں ہے اور زینب کی والدہ(مرضعہ)جوکہ زید کی نانی ہے وہ آج کل ایسی حالت میں ہے کہ اس کو کچھ یاد نہیں ہے ،یادداشت بالکل کمزور ہے ۔پوچھنایہ ہے کہ کیا زید (جوکہ زینب کابیٹاہے)کانکاح رقیہ(جوکہ کلثوم کی بیٹی ہے)سے درست ہے یانہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے دو عادل مرد  یاایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی ضروری ہے، صرف ایک مرد ، یادوعورتوں یاکسی ایک عورت کا قول رضاعت کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں زینب خاتون کا یہ کہنا کہ  میرے بیٹے زید نے میری والدہ کا دودھ پیا ہے ، جب کہ اس کے پاس اپنے اس دعوی پر شرعی گواہ نہیں ہیں ، تو ایسی صورت میں زیداور اس  کی خالہ  کی بیٹی کے درمیان حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی، لہذا دونوں کی منگنی اور نکاح شرعا برقرار ہے۔تاہم اگر غالب گمان یہ ہوکہ زینب  اپنے دعوی  میں   سچی ہے اور لوگوں میں یہ بات معروف اور مشہور ہوگئی ہو   تو احتیاطاً یہ منگنی توڑ دینی چاہیے۔

مشکات شریف میں حدیث ہے:

"وعن عقبة بن الحارث : أنه تزوج ابنة لأبي إهاب بن عزيز فأتت امرأة فقالت : قد أرضعت عقبة والتي تزوج بها فقال لها عقبة : ما أعلم أنك قد أرضعتني ولا أخبرتني فأرسل إلى آل أبي إهاب فسألهم فقالوا : ما علمنا أرضعت صاحبتنا فركب إلى النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة فسأله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " كيف وقد قيل ؟ " ففارقها عقبة ونكحت زوجا غيره۔"

(كتاب النكاح ، باب المحرمات:2/ 218،ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت عقبہ بن حارث  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا، پھر ایک عورت آئی وہ کہنے لگی کہ میں نے عقبہ اور اس عورت کو جس سے اس نے نکاح کیا ہے دودھ پلایا ہے، عقبہ نے اس عورت کو کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ تونے مجھے دودھ پلایا اور تو نے مجھے اس سے پہلے اس کی اطلاع بھی نہیں دی ، پھر انہوں نے ایک  شخص کو ابو اہاب کے پاس بھیجا اور اس سے پوچھا کہ تمہاری لڑکی کو کیا اس عورت نے دودھ پلایا ہے ، انہوں نے جواب دیا  ہمیں معلوم نہیں  کہ اس عورت نے ہماری لڑکی کو دودھ پلایا ہے یا نہیں ،چنانچہ عقبہ اسی وقت سوار ہو کر مدینہ منورہ حضورﷺ کی خدمت میں پہنچے اور اس کا حکم آپ ﷺسے دریافت کیا، تو آ پ ﷺ  نے فرمایا کہ تو اس عورت کو کس طرح  نکاح میں رکھے گا، جب کہ اس کے بارے میں یہ کہہ دیاگیا کہ وہ تیری دودھ شریک بہن ہے، تو عقبہ نے اس عورت کو جداکردیا،اس عورت نے دوسرے خاوند سے نکاح کرلیا۔"

(مظاہر حق)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الرضاع يظهر بأحد أمرين أحدهما الإقرار والثاني البينة كذا في البدائع ولا يقبل في الرضاع إلا شهادة رجلين أو رجل وامرأتين عدول۔"

(كتاب الرضاع:1/ 347،دار الفكر)

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"ولا يجوز شهادة امرأة واحدة على الرضاع أجنبية كانت أو أم أحد الزوجين، فإن وقع فى قلبه صدق المخبر فالأفضل أن يتنزه قبل العقد و بعده يسعها المقام معه حتى يشهد على ذلك رجلان أورجل وامرأتان عدول، ولا يقبل شهادة النساء وحدهن۔"

(كتاب النكاح،فصل الرابع فى الرضاع:2/11،ط:رشيدية)

فتاوی تنقیح الحامدیہ میں ہے:

 "(سئل) في شهادة النساء وحدهن على الرضاع هل تقبل؟ (الجواب) : حجة الرضاع حجة المال وهو شهادة عدلين أو عدل وعدلتين ولا يثبت بشهادة النساء وحدهن لكن إن وقع في قلبه صدق المخبر ترك قبل العقد أو بعده كما في البزازية.(أقول) : أي ترك احتياطا۔"

 (كتاب النكاح ، باب الرضاع :1/ 35،ط:دارالمعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100481

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں