بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک آدمی اگرایک شخص کو یورپ اس شرط پربھیجے کہ راه کے تمام اخراجات میں ادا کروں گا ، اورجوتم وہاں کماؤ گے وہ ہم دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا، کیا یہ معاملہ درست ہے؟


سوال

 ایک آدمی نے  ایک شخص کو یورپ اس شرط پربھیجا ہے کہ راه کے تمام مصارف میں ادا کروں گا ، اورجوتم جتنا روپیہ وهاں  کماؤ گے،  وہ  ہم دونوں  کے درمیان آدھا آدھا ہوگا،  یہ کونسا عقد ہے؟  کیا اس طرح معاملہ درست ہے؟

جواب

سوال میں مذکور معاملہ درست نہیں ہے  اور ایسا معاملہ طے کرنا اور اس کے ذریعہ سے  حاصل ہونے والی آمدنی  دونوں ناجائز ہے، یہ طریقہ جائز پارٹنر شپ کی کسی بھی صورت میں نہیں آتا،  نیز اس میں سود کا بھی اندیشہ ہے، یعنی پہلا شخص دوسرے کے سفری  اخراجات ادا کر کے اس کے عوض میں اس کی آدھی  کمائی  وصول کر رہا ہے،  جب اس کے نفع کی رقم اخراجات کی مد میں لگنے والی رقم سے بڑھ جائے گی تو اضافی رقم کی وصولی سود ہوگی،   لہٰذا اگر  دونوں  نے  آپس میں یہ معاملہ طےکر لیا ہے   تو ان پر لازم ہے کہ مذکورہ معاملہ ختم کریں، اور جتنی رقم پہلے شخص(جس  نے سفر کے مصارف ادا کیے تھے) نے اس دوران لے لی ہے  وہ  دوسرے شخص کو واپس کردے اور صرف اپنی اصل رقم اس سے بغیر کمی یا زیادتی کے واپس لےلے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"لأن سبيل ‌الكسب ‌الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الكراهية، فصل في البيع، ج:6، ص:27، ط:بولاق) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں