بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک آدمی کنواں کھودے اور دوسرا اس پر موٹر لگائے اور دونوں اس سے استفادہ کریں تو کیا حکم ہے؟


سوال

 میرے رہائش کے مکان میں ایک کنواں ہے، جسے ہم نے ہی مزدوروں سے کھدوایا اور دیہاڑی اپنی ملکیت سے دی، اب اس کنویں سے میرےہمسائے بھی پانی بھرتے ہیں اور کنویں میں موٹر انہوں نے لگوائی اور اپنی بجلی جلا کر وہ پانی بھرتے ہیں، ہم صرف ان کی بجلی پر اپنے گھر کا پانی بھرتے ہیں، اور اس پر وہ راضی ہیں ہم پانی کا پیسا نہیں لیتے تو ہمارا ان کی بجلی اور موٹر پر پانی بھرنا کیسا ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ معاملہ پر اگر  دونوں طرف سے رضامندی ہے کہ آپ کا پانی وہ استعمال کرتے ہیں اور اُن کی بجلی سے آپ موٹر چلاتے ہیں، تو یہ معاملہ  شرعی اعتبار سے جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

كنز العمال  میں ہے:

"عن ابن مسعود قال: إن الله نظر في قلوب العباد فاختار محمدا صلى الله عليه وسلم فبعثه برسالته وانتخبه بعلمه، ثم نظر في قلوب الناس بعده فاختار له أصحابا فجعلهم أنصار دينه ووزراء نبيه، وما رآه المؤمنون حسنا ‌فهو ‌عند ‌الله ‌حسن، وما رآه المؤمنون قبيحا فهو عند الله قبيح. ".

(‌‌باب فضائل الصحابة،٤٨٥/١٢،ط : مؤسسة الرسالة)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

" قال عليه الصلاة والسلام «ما رآه المؤمنون حسنا ‌فهو ‌عند ‌الله ‌حسن» قال القدوري وما لم ينص عليه فهو محمول على عادات الناس وهذا لما روينا من الحديث وروي عن أبي يوسف أن العرف يعتبر على خلاف المنصوص عليه".

‌‌(كتاب البيوع، ٨٨/٤، ط : المطبعة الكبرى الأميرية)

بغية المقتصد شرح بداية المجتهد میں ہے:

"والعادة بنيت على الأثر الذي جاء عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه: "‌ما ‌رآه ‌المسلمون ‌حسن فهو عند الله حسن، وما رأوه سيئا فهو عند الله سيئ"، فالعادات التي لا تتعارض مع الأحكام الشرعية معتبرة، وهي تعتبر في أبواب كثيرة".

‌‌[الموضع الرابع، ٥٥٥٢/٩، ط: دار ابن حزم)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں