بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک آدمی کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسرے آدمی سے نکاح کرنا / ایسی عورت کی گواہی کا حکم / یک طرفہ خلع کا حکم


سوال

ایک  عورت جو کسی كے نکاح میں تھی اس نے عدالت میں خلع کا دعویٰ دائر  کیا اور اس کو عدالت نے 17 جولائی 2022ء  کو خلع کی ڈگری جاری کی، مگر اِس ہی دوران اس نے تقریباً ایک مہینے قبل ہی 31 جون 2022ء  میں نکاح کر لیا،  کیا ایسی عورت کی گواہی  قبول ہوگی اور ایسی عورت كے بارے میں شریعت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ عورت نے اپنے شوہر کے نکاح میں ہوتے ہوئے، کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلیاہے، تو یہ نکاح شرعاً منعقد ہی نہیں ہوا، نیز یک طرفہ طور پر خلع حاصل کرلینے سے بھی شرعاً خلع نہیں ہوتی، لہٰذا مذکورہ عورت بدستور اپنے سابقہ شوہر کے نکاح میں ہی ہے، اس نکاحِ باطل   سے اس کے سابقہ نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا اور دونوں میاں بیوی بغیر تجدیدِ نکاح کے بھی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، البتہ ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر دوسرے شخص نے اس عورت کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرلیے ہوں اور اُس شخص کو  اس عورت سے نکاح کے وقت یہ معلوم نہ ہو کہ یہ عورت پہلے سے کسی کی منکوحہ ہے، تو پہلے شوہر کو چاہیے کہ عورت کے تین حیض گزرنے تک رُکا رہے اور ازدواجی تعلقات قائم نہ کرے، اس کے برخلاف اگر اُس دوسرے شخص کو اس عورت سے نکاح کے وقت یہ معلوم تھا  کہ یہ عورت کسی اور کی منکوحہ ہے اور پھر اس شخص نے اس عورت سے جسمانی تعلقات قائم کیے، تو پہلے شوہر کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس عورت کے پاس ایک حیض گزرنے تک نہ جائے، البتہ اگر چلا بھی جائے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ 

باقی ایسی عورت کی گواہی سے متعلق حکم یہ ہے کہ چوں کہ نکاح پر نکاح کرنا زنا کے مرتبے میں ہے اور زنا کا مرتکب فاسق ہوتا ہے، اور فاسق کی عدالت ساقط ہوجاتی ہے، لہذا قاضی پر ایسی عورت کی گواہی قبول کرنا واجب نہیں ہے، تاہم اگر قاضی کو قرائن سے یہ بات معلوم ہوجائے کہ یہ عورت فاسقہ ہونے کے باوجود سچ بات کہہ رہی ہے تو اس صورت میں قاضی کو اس کی گواہی قبول کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وسيأتي في باب العدة أنه لا عدة في نكاح باطل. وذكر في البحر هناك عن المجتبى أن كل نكاح اختلف العلماء في جوازه كالنكاح بلا شهود فالدخول فيه موجب للعدة.

أما ‌نكاح ‌منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣/ ١٣٢، ط: سعيد)

تبیین الحقائق میں ہے:

"ألا ترى ‌أن ‌المنكوحة ‌إذا ‌وطئت بشبهة بأن تزوجها رجل ودخل بها تجب عليها العدة وتحرم على الأول على ما هو المختار واختار خواهر زاده أن العدة لا تجب ولا يحرم وطؤها على الأول، وقيل إذا كان الثاني عالما فكما اختاره خواهر زاده وإن لم يعلم فكالأول."

(كتاب النكاح، باب نكاح الكافر، ٢/ ١٧٢، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فقالت: ‌خلعت ‌نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده."

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ٣/ ٤٤٠، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ٣/ ٤٤١، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(قوله: فلو كشف له إلخ) أي: للاستنجاء بالماء قال نوح أفندي: لأن كشف العورة حرام ومرتكب الحرام فاسق."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، فصل الاستنجاء، ١/ ٣٣٨، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(فلو قضى بشهادة فاسق نفذ).

وقال عليه في الرد: (قوله بشهادة فاسق نفذ) قال في جامع الفتاوى: وأما شهادة الفاسق، فإن تحرى القاضي الصدق في شهادته تقبل وإلا فلا اهـ فتال: وفي الفتاوى القاعدية: هذا إذا غلب على ظنه صدقه وهو مما يحفظ درر أول كتاب القضاء، وظاهر قوله وهو مما يحفظ اعتماده اهـ"

(كتاب الشهادات، ٥/ ٤٦٦، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100690

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں