زید نے عمر کو 50000 روپے دیے کہ آپ اس رقم سے ایگ گاڑی خرید کر اپنے اوپر قسطوں میں 100000 کی فروخت کرلیں اور مجھے 50000 کے بجائے 100000 واپس دے دیں، کیا یہ معاملہ درست ہے؟
مذکورہ معاملہ چند وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے :
1- زید نے جب عمر کو 50000 روپے دیے تو شرعًا اس رقم کی حیثیت قرض کی تھی اور قرض پر نفع حاصل کرنا سود ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔
2- عمر جب گاڑی خرید کے اپنے ہی اوپر فروخت کرے گا تو اس صورت میں عمر پہلے زید کی طرف سے خریدار بن رہا ہے، پھر جب وہ اپنے اوپر فروخت کرے گا تو عمر کی ایک وقت میں دو حیثیتیں وجود میں آرہی ہیں یعنی عمر زید کی طرف سے بائع ( فروخت کنندہ ) بھی بن رہا ہے، جب کہ خود اپنی طرف سے وہ مشتری ـ( خریدار ) بھی ہے۔ اور شرعًا ایک شخص ایک ہی وقت میں بائع اور مشتری نہیں بن سکتا؛ لہٰذا یہ صورت بھی ناجائز ہوئی۔ چنانچہ فتاوی شامی میں ہے :
"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام."
وفي الرد:
"(قَوْلُهُ: كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ) أَيْ إذَا كَانَ مَشْرُوطًا، كَمَا عُلِمَ مِمَّا نَقَلَهُ عَنْ الْبَحْرِ."
(5/166، مطلب كل قرض جرّ نفعًا، ط: سعید)
"الْوَكِيلُ بِالْبَيْعِ لَايَمْلِكُ شِرَاءَهُ لِنَفْسِهِ؛ لِأَنَّ الْوَاحِدَ لَايَكُونُ مُشْترِيًا وَ بَائِعًا."
( کتاب الوکالة ، فصل : لايعقد وكيل البيع والشراء ، 5/521، ط: دار الفکر بیروت)
اس کی جائز صورت یہ ہے کہ زید خود 50000 کی ایک گاڑی خرید کر عمر کو قسطوں پر 100000 کی فروخت کردے۔ اس طرح یہ معاملہ شریعت کی رو سے درست ہوجائے گا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207200065
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن