بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایفلییٹ مارکیٹنگ اور ڈراپ شپنگ کا حکم


سوال

Affiliate marketing اور Drop shipping میں کیا فرق ہے، یہ دونوں حلال ہے یا حرام ہے؟

جواب

ایفیلییٹ مارکیٹنگ

دنیا میں رائج مختلف قسم کے آن لائن اسٹورز یا برینڈز پر مختلف کمپنیوں کی پروڈکٹس فروخت ہوتی ہیں اور ہر پروڈکٹ کا ایک لنک ہوتا ہے ، اگر کوئی شخص اس لنک کو کاپی کرکے دوسری جگہ مثلاً اپنی سوشل سائٹس پر بھیجے اور پھر کوئی شخص اس لنک کو کھول کر ایمازون سے وہ پروڈکٹ خرید لے تو لنک بھیجنے والے کو اس کا کمیشن دیا جاتا ہے ، کیوں کہ اس  کے بھیجے گئے لنک کے ذریعہ خردیدوفروخت ہوتی ہے یہ ایفیلییٹ مارکیٹنگ کہلاتی ہے۔

ایسی ویب سائٹ پر فروخت ہونے والی جائز  اشیاء کی قیمتوں میں سے مخصوص تناسب کے عوض  تشہیری اور ترویجی مہم میں حصہ لینا جائز ہےاور اس  پر فیصد کے اعتبار سے کمیشن مقرر کرکے  کمیشن لینے میں کوئی مضائقہ نہیں،  شرعاً یہ  کام دلالی کے حکم میں ہے، جس کی اجرت لینا جائز ہے ،البتہ  یہ ضروری ہے کہ  اس میں شرعًا کوئی ایسا مانع نہ ہو جس کی وجہ سے اصلاً بیع ہی ناجائز ہوجائے جیسے مبیع کاحرام ہونا،لہذا صرف ان ہی مصنوعات کی تشہیر کی جائے جو اسلامی نقطۂ نظر سے حلال ہو ں، جوچیزیں  شرعاًحرام ہیں ان کی تشہیر کرکے پیسہ کمانا جائز نہیں ہے ، اسی طرح جس کمپنی کی مصنوعات  کی  تشہیر کرنا ہو اس  کمپنی کی طرف سےمصنوعات کے حقیقی  اوصاف، قیمت  وغیرہ  واضح طور پر درج ہو ،سامان نہ ملنے یا غبن ہوجانے کی صورت میں مصنوعات خریدنے کے لئےجمع کی گئی رقم کی  واپسی کی ضمانت دی گئی ہو ، مزید یہ کہ آڈر کرنے کے بعد مقررہ تاریخ تک مصنوعات نہ ملنے پر یا زیادہ تاخیر ہونے کی صورت میں کسٹمر کو  آڈر کینسل کرنے کا بھی اختیارہو ،نیز آن لائن تجارت کرنے والےایسے ادارے اور  افراد  بھی ہیں جن کے یہاں مصنوعات موجود نہیں ہوتیں، محض اشتہار ات ہوتے ہیں اس لئے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ اس کمپنی کے پاس مصنوعات کا حقیقی وجود ہے۔

 ڈراپ شپنگ

ڈراپ شپنگ کا عام طور  پر طریقہ یہ ہے کہ بائع اپنی مصنوعات کی تصاویر اور تمام تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر یا اپنے پیج پر ظاہر کردیتا ہے، ویب سائٹ یا پیج دیکھنے والا اشیاء  کو دیکھ کراپنی پسند کردہ شے (چیز) پر کلک کرکےاس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے، رقم کی ادائیگی کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں، کبھی ادائیگی ڈیلیوری پر کی جاتی ہے یعنی جب مبیع مقرر ہ جگہ پر پہنچا دی جاتی ہے تو مشتری رقم ادا کرتا ہے اور بعض دفعہ  ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے، بائع مشتری کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کرکے بینک کو بھیجتا ہے اور وہاں سے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے،  مبیع کی ادائیگی بعض اوقات کسی کوریئر سروس کے ذریعے کی جاتی ہے اوربعض اوقات کمپنی خود یہ کام کرتی ہے ،ضروری  نہیں کہ مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) بائع کی ملکیت میں موجود ہو، بلکہ وہ  آرڈر ملنے پر اشیاء کا انتظام کرتا ہے اور مشتری کے پتے  پر یہ اشیاء ارسال کرتا ہے۔

اس طریقہ  کار وبار میں  خریدار کا اپنی مطلوبہ اشیاء پر کلک کردینا  بظاہر قبول ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خریدار کا عمل ایجاب ہے اور بائع  کا اپنی مصنوعات اپنی سائٹ پر ظاہر کردینا ایجاب کی پیشکش ہےقبول نہیں۔جیسے دکان داراشیاء اپنے اسٹال پر قرینے سے سجادیتا ہے اوران پر قیمتبھی چسپاں ہوتی ہیں، مگر وہ ایجاب نہیں ہوتا، بلکہ دعوتِ ایجاب ہوتی ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر  بائع کااپنی اشیاء ظاہر کردینا بھی دعوتِ ایجاب ہے اورجیسے دکان پر دکان دار کاعمل قبول ہوتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری میں بھی بائع کاعمل ایجاب کی قبولیت ہوتا ہے ، ایک عام دکان پر اگر خریدار  اوردکان دار زبان سے کچھ نہ کہیں تو دونوں جانب سے ’’بیع  تعاطی‘‘  سے مکمل ہوجاتی ہے اوراگر خریدار زبان سے خریدار ی کی خواہش کا اظہارکرے اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ چیز حوالے کردے یا ثمن قبول کرلے تو  بائع کی طرف سے فعلاً قبول ہوتا ہے، اسی طرح ویب سائٹ  پر بھی فعلی قبول ہوجاتا ہے ،بہرحال چیزوں کو پیش کرنا ایجاب نہیں، بلکہ ایجاب کی دعوت ہوتا ہے،  یہی وجہ ہے کہ دوکان میں جب خریدارکو ئی چیز اٹھالیتا ہے تواس وقت بیع مکمل نہیں ہوتی، بلکہ کاؤنٹر پر آکر بھاؤ تاؤ ہوتا ہے، اگر چیزوں کو پیش کرنا ایجاب ہوتا تو خریدار کے اٹھا لینے اور کاؤنٹر پر پیش کرنے کے بعد اسے واپس لینے کا حق نہ ہوتا ،مختلف ویب سائیٹس پر جب گاہک اپنی پسندیدہ چیز  پر کلک کرتا ہے تو یہ تحریری ایجاب ہوتا ہے، جب یہ ایجاب کمپنی یا فرد کے پاس جاتا ہے تووہ اسے قبول کرلیتا ہے یوں یہ عقد جانبین سے تحریری صورت میں عمل پذیر ہوتاہے۔

ایسی ویب سائٹس پر  اس طرح خریدوفروخت کرنا درست ہے ،البتہ اس میں  درج ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے :

1. انٹرنیٹ پرسونا چاندی یا کرنسی کی خریدوفروخت  ہو تو بیعِ صرف کے احکام کی رعایت لازم ہوگی،یعنی ہاتھ در ہاتھ اور نقد ہونا ضروری ہے اور یہ صورت آن لائن خریداری میں ممکن ہی نہیں ، لہذا سونا ، چاندی اور کرنسی کی آن لائن تجارت نہ کی جائے۔

2. مبیع اور ثمن کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔

3. کوئی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو۔

4. صرف تصویر دیکھنے سے خریدار کا خیار   رؤیت ساقط نہیں  ہوگا، لہذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہیں یا  دیکھنے کے بعد مشتری کو پسند نہ آئے تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔

5. ویب سائٹ پراپنی پروڈکٹ  کی تشہیر  کے لئے  جان دار کی تصویر نہ لگائی جائی۔

6. اگر ویب سائٹ والے آرڈر ملنے پر کسی اور جگہ سے چیز مہیا کرتے ہوں تو صارف کو اس وقت تک نہ بیچیں، جب تک چیز ان کے قبضے میں نہ آجائے، البتہ وہ وکیل بالشراء (خریداری کے وکیل)کے طورپر معاہدہ کرسکتے ہیں یعنی  صارف  (کسٹمر) ویب سائٹ والے  کو خریداری کا وکیل بنادے، ویب سائٹ والا    وکیل بن کر اس چیز کو   مؤکل   (صارف )کیلئے خریدے ،نیز ایک صورت یہ بھی    درست  ہے   کہ ویب سائٹ   اپنے  صارف کیساتھ  اس کی مطلوبہ چیز   کی بیع  کا   وعدہ کرےاور جب وہ  چیز قبضہ میں آجائے  تو صارف سےعقدِ بیع  کرکے   وہ چیز صارف کو ارسال کرے۔

 7. ویب سائٹ پر اشیاء بیچنے والے  کو چاہیے کہ  ادائیگی کے لیے کریڈٹ کارڈ کا آپشن  دینے کے بجائے صرف ڈیبٹ کارڈ  یا    ڈیلیوری پر ادائیگی کا آپشن  دے؛ کیوں کہ  کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں، اگر چہ وقتِ مقررہ کے اندر ادائیگی کردی جائےاورسود دینے کی نوبت نہ آئے ،نیز اگر اس پروڈکٹ میں کوئی ایسا  عیب ہو جس کا مشتری کو علم نہیں تھا تو پھرمشتری کو خیارِ عیب حاصل ہوگا، اگر وہ چاہے تو پوری قیمت پر اسے لے لے، اگر چاہے تو واپس کردے ، لیکن اسے یہ حق نہیں کہ وہ مبیع رکھ کر نقصان کی قیمت لے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية."

"(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(كتاب البيوع، فرع، ج:4، ص:560، ط:سعيد)

"المحيط البرهاني" میں ہے:

"يجب ‌أن ‌يعلم ‌أن ‌شراء ‌مالم ‌يره ‌المشتري ‌جائز ‌عندنا، وصورة المسألة: أن يقول الرجل لغيره: بعت منك الثوب الذي في كمي هذا، والصفة كذا، أو الدرة التي في كفي وصفته كذا، أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المتبقية."

(‌‌كتاب البيع، الفصل الثالث عشر: في خيار الرؤية، ج:6، ص:531، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"خيار ‌العيب ‌يثبت ‌من ‌غير ‌شرط ‌كذا ‌في ‌السراج ‌الوهاج وإذا اشترى شيئا لم يعلم بالعيب وقت الشراء ولا علمه قبله والعيب يسير أو فاحش فله الخيار إن شاء رضي بجميع الثمن وإن شاء رده كذا في شرح الطحاوي وهذا إذا لم يتمكن من إزالته بلا مشقة، فإن تمكن فلا كإحرام الجارية."

(كتاب البيوع، الباب الثامن في خيار العيب، الفصل الأول، ج:3، ص:66، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412101473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں