ایک کمپنی ہے ،دوسرے ممالک کی کمپنی ہے، online اس کا پیکج ہے 200 ڈالرز کا ،وہ پیکج لگتاہے، اس کے بدلے میں کام ملتا ہے وہ کمپنی ہمیں روزانہ دس ایڈ دیکھنے کے لیے دیتی ہے، وہ دس ایڈز دیکھنے کے ہمیں 8 ڈالر دیتی ہے، اس طرح کمپنی 75 دن تک دس ایڈ ز دیکھنے پر ہمیں 8 ڈالر روزانہ دیتی رہے گی، اگر ہم وہ ایڈ نہیں دیکھتے تو ہمیں کچھ نہیں ملتا اور ہم ایڈ دیکھتے بھی نہیں ہیں اور سنتے بھی نہیں ہیں بس ا سکپ کر کے لائک کر کے نیکسٹ کر دیتے ہیں، پوچھنا یہ چاہتے ہیں کیا یہ سود تو نہیں ہے؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ کمپنی کی کمائی درج ذیل وجوہات کی بناء پر ناجائز ہے :
تفسیر بغوی میں ہے :
"قوله تعالى:يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل يعني بالحرام، بالربا والقمار والغصب والسرقة والخيانة ونحوها، وقيل: هو العقود الفاسدة إلا أن تكون تجارة".
(ج:1،ص:602،داراحیاء التراث العربی)
فتاوی شامی میں ہے :
"والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل".
(باب المہر،ج:3،ص:156،سعید)
البحر الرائق میں ہے :
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."
(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :
"الإجارۃ علی المنافع المحرمۃ کالزنی والنوح والغناء والملاہی محرمۃ وعقدہا باطل لا یستحق بہٖ أجرۃ۔ ولا یجوز استئجار کاتب لیکتب لہٗ غنائً ونوحًا ، لأنہٗ انتفاع بمحرم۔ وقال أبو حنیفۃ : یجوز ، ولا یجوز الاستئجار علی حمل الخمر لمن یشربہا ، ولا علی حمل الخنزیر."
(کتاب الاجارۃ،الاجارۃ علی المعاصی ،ج:1،ص:290،دارالسلاسل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408101550
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن