بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ایڈ (اشتہارات ) دیکھنے پر کمیشن لینے کا حکم


سوال

 ایک کمپنی ہے ،دوسرے ممالک کی کمپنی ہے، online اس کا پیکج ہے 200 ڈالرز کا ،وہ پیکج لگتاہے، اس کے بدلے میں کام ملتا ہے وہ کمپنی ہمیں روزانہ دس ایڈ دیکھنے کے لیے دیتی ہے، وہ دس ایڈز دیکھنے کے ہمیں 8 ڈالر دیتی ہے، اس طرح کمپنی 75 دن تک دس ایڈ ز دیکھنے پر  ہمیں 8 ڈالر روزانہ دیتی رہے گی،  اگر ہم وہ ایڈ نہیں دیکھتے تو ہمیں کچھ نہیں ملتا اور ہم ایڈ دیکھتے بھی نہیں ہیں اور سنتے بھی نہیں ہیں بس ا سکپ کر کے لائک کر کے نیکسٹ کر دیتے ہیں،  پوچھنا یہ چاہتے ہیں کیا یہ سود تو نہیں ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ کمپنی کی کمائی درج ذیل وجوہات کی بناء پر ناجائز ہے :

  1. مذکورہ کمپنی کی جانب سے روزانہ ایڈز(اشتہارات) دیکھنے کے لیے جو ٹاسک ملتا ہے اور اس کو کلک کرنے پر جو معاوضہ دیا جاتا ہے یہ بظاہر اجارہ کا معاملہ ہے، لیکن اس میں خرابی یہ ہے کہ اجارہ میں اجیر سے کوئی  معاوضہ نہیں لیا جاتا بلکہ اجیر کو اس کے عمل پر  محنتانہ دیا جاتا ہے جبکہ مذکورہ کمپنی  میں اجیر کو پہلے پیکیج کے نام پر رقم جمع  کرنی ہوتی ہے اور اس پر اس کو ٹاسک ملتا ہے ،مزید یہ کہ ایڈز پر کلک کرنا فی نفسہ کوئی مفید عمل نہیں جس پر اجارہ کو درست کہا جاسکے ۔
  2. اس میں ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہوتا ، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔
  3.  جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو اس کا دیکھنا جائز نہیں۔لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔
  4. ان اشتہارات میں  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے بھی  مستقل گناہ ہے۔
  5. اور اگر دیکھنے اور سننے کے بغیر  بھی اسکپ کرکے اس کو نیکسٹ کردیتے ہیں تب بھی   اس پر کمیشن لینا جائز نہیں ؛اس لیے کہ کمیشن اس کو اشتہارات  پر  ملتے ہیں اگر چہ اس کو دیکھے بھی نہیں اور سنے بھی نہیں ۔اور اس کی وجہ نمبر1 اور نمبر 2 کے تحت مذکور ہے ۔

تفسیر بغوی میں ہے :

"قوله تعالى:يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل يعني بالحرام، ‌بالربا ‌والقمار والغصب والسرقة والخيانة ونحوها، وقيل: هو العقود الفاسدة إلا أن تكون تجارة".

(ج:1،ص:602،داراحیاء التراث العربی)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌والأجرة ‌إنما ‌تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل".

(باب المہر،ج:3،ص:156،سعید)

البحر الرائق میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: ‌تصوير ‌صور ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :

"الإجارۃ علی المنافع المحرمۃ کالزنی والنوح والغناء والملاہی محرمۃ وعقدہا باطل لا یستحق بہٖ أجرۃ۔ ولا یجوز استئجار کاتب لیکتب لہٗ غنائً ونوحًا ، لأنہٗ انتفاع بمحرم۔ وقال أبو حنیفۃ : یجوز ، ولا یجوز الاستئجار علی حمل الخمر لمن یشربہا ، ولا علی حمل الخنزیر."

(کتاب الاجارۃ،الاجارۃ علی المعاصی ،ج:1،ص:290،دارالسلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101550

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں