بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عیب شدہ مال بیچنا


سوال

ہم ریت، بجری کا کاروبار کرتے ہیں، نوری آباد وغیرہ سے ہم ریت وغیرہ لاتے ہیں، اس میں تین قسم ہیں:  1۔ ریتی 2۔ مکس 3۔ سادی مٹی، مکس ان میں سب سے مہنگا ہے، اب سادی مٹی میں ریتی اور مکس کا کچھ مال وغیرہ ملا کر اسے مکس کا درجہ دیتے ہیں جو کہ میٹریل کا نام ہے جو بھرائی میں استعمال ہوتا ہے۔ اب لینے والے بروکر یا ہمارے ڈمپر والے آتے ہیں اور اس طرح کا مال لیتے ہیں اور آگے جاکر فروخت یا سپلائی کرتے ہیں اگر تعمیر کرنے والے کو پتہ چلے تو وہ اس مال کو پسند نہیں کرتا اور یہ تعمیر میں نقصان  دہ بھی ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ ہم سے خریدنے والے بروکر یا ڈمپر والوں کو تو معلوم ہوتا اور ہم انہیں اس کے اعتبار سے ریٹ لگا کر فروخت کرتے ہیں ۔ لیکن وہ آگے جاکر کس نام سے اور کس قیمت پر بیچتے ہیں یہ ہمیں معلوم نہیں۔ اب اس طرح مال بیچتے میں اگر وہ دو نمبری کریں اور اصل مال کا درجہ دے کر  بیچیں تو ہم اس گناہ میں ملوث ہوں گے یا نہیں؟ اور اس طرح کا مال ان کے مطالبہ پر ہمارے لیے بنانا اور اسے ان کے حوالے کرنا کیسا ہے؟ اور اگر ہم خود بھی ایسا مال بیجے تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ چاہے اسے بتا دیں کہ یہ مکس کیا ہوا مال ہے یا صاف ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ ميں  سائل سےمتوسط مال  خریدنے والے اگر اس کو آگے اعلی مال ظاہر کر کے فروخت کریں تو سائل کو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا، بلکہ جو لوگ آگے دھوکہ دیں وہی گناہ گار ہوں گے۔  

احكام القران للجصاص ميں هے:

"وقوله تعالى: {ألا تزر وازرة وزر أخرى} هو كقوله:{ومن يكسب إثما فإنما يكسبه على نفسه} وكقوله:{ولا تكسب كل نفس إلا عليها}."

(سورة النجم، ص/298، ج/5، ط/دار احیاء التراث العربی)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا فقال: «ما هذا يا صاحب الطعام؟» قال أصابته السماء يا رسول الله، قال: «أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس، من غش فليس مني»۔"

(کتاب الایمان، ص/99، ج/1، ط/دار احیاء التراث العربی)

2،3۔ سائل کے لیے یہ مال مذکورہ لوگوں کے لیے ان کے مطالبہ پر مذکورہ مال بناکر ان کے حوالے کرنا یا بناکر کسی اور کو بیچنا جائز ہے بشرطیکہ جن لوگوں کو مال دے اس کو بتادے کہ یہ متوسط درجے کا مال ہے۔ 

در مع الرد میں ہے:

"لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام  ،إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان۔"

(باب خیار العیب، ص/47، ج/5، ط/سعید) 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144303101058

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں